گزشتہ ایک ہفتے کے دوران سرکاری سطح پر یکے بعد دیگرے ہنگامی اقدامات اٹھائے جانے کے نتیجے میں بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں عام لوگوں میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے جبکہ سیاسی جماعتیں مختلف نوعیت کی قیاس آرائیوں اور افواہوں کے بیچ تذبذب کا شکار نظر آتی ہیں۔
ایک تازہ آرڈر میں پانچ اضلاع کے پولیس سربراہان سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے اپنے علاقے کی مساجد کے محل وقوع، ان کے آئمہ اور منتظمین کے کوائف بشمول ان کی نظریاتی وابستگی جمع کر کے انہیں فوری طور پر محکمے کے اعلیٰ عہدیداروں کو پیش کریں۔
سرکردہ مذہبی اور سیاسی راہنما میر واعظ عمر فاروق نے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئےکہا کہ یہ لوگوں کو ہراساں اور خوف زدہ کرنے کی کوششوں کی تازہ کڑی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پولیس اور دوسری سرکاری ایجنسیاں مساجد، خانقاہوں اور درگاہوں کو بھی اپنے دائرہ اثر میں لانا چاہتی ہیں۔
میر واعظ عمر نے جو متحدہ مجلسِ علماء کے سربراہ بھی ہیں، کہا کہ اس تنظیم کا عنقریب ایک اجلاس منعقد کیا جائے گا جس میں اس "قابلِ تشویش" صورتِ حال پر غور وخوض کے بعد آئندہ حکمتِ عملی ترتیب دی جائے گی۔
گزشتہ ہفتے بھارت کی وزارتِ داخلہ نے وفاقی مسلح پولیس فورسز کی مزید ایک سو اضافی کمپنیاں یعنی تقریباً گیارہ ہزار نفری نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر روانہ کرنے کے احکامات صادر کئے تھے۔ وزارتِ داخلہ نے کہا تھا کہ اضافی فورسز کو ریاست میں انسدادِ بغاوت یا عسکریت مخالف گرڈ کو مزید مستحکم بنانے اور امن و امان برقرار رکھنے کیلئے تعینات کیا جارہا ہے۔
تاہم اس فیصلے نے ریاست میں طرح طرح کی افواہوں اور قیاس آرائیوں کو جنم دیا ۔ کئی لوگوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ کشمیر کی پہاڑیوں میں واقع ہندوؤں کے مذہبی مقام امر ناتھ غار کیلئے جاری سالانہ یاترا کے بعد نریندر مودی حکومت ریاست میں تحریکِ مزاحمت کو دبانے کیلئے سخت گیر اقدامات اٹھا سکتی ہے۔ یہ یاترا 15 اگست کو اختتام پذیر ہو گی۔ بعض حلقوں میں یہ قیاس آرائی کی جانے لگی کہ نئی دہلی کی حکومت آئینِ ہند کی دفعات 370 اور 35 اے کو، جن کے تحت ریاست کو ہند یونین میں خصوصی پوزیشن اور اس کے حقیقی باشندوں کو مختلف مراعات حاصل ہیں، منسوخ کرنے کا اعلان کر سکتی ہے۔
حفاظتی امور پر ریاست کے گورنر کے مشیر کے وجے کمار نے کہا، " اضافی نفری کی تعیناتی کا اقدام سیکورٹی گرڈ کی ضرورت کے پیشِ نظر سوچ سمجھ کر اٹھایا گیا ایک دانستہ قدم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امرناتھ یاترا پر توجہ مرکوز ہو جانے کی وجہ سے سیکورٹی گرڈ کو دستیاب حفاظتی دستوں کی تعداد میں کمی بیشی آ گئی تھی۔ لہٰذا مزید فورسز کو یہاں لانے کی ضرورت پیش آئی۔ یہ ایک ایسے منصوبے کا حصہ ہے جو پائپ لائین میں ہے"۔
اگرچہ ایک پولیس عہدیدار حسیب مغل نے وضاحت کی ہے کہ مساجد اور ان کے اماموں اور منتظمین کے کوائف جمع کرنا امن و امان کا بندوبست کرنے کے عمل کا ایک حصہ ہے، ایک اور ایسے آرڈر کی وجہ سے بھی غیر یقینی صورتِ حال میں شدت آ گئی ہے جس میں محکمہ ریل کے ایک اعلیٰ افسر نے وادئ کشمیر میں تعینات عملے سے کہا تھا کہ کشمیر میں ایک لمبے عرصے تک جاری رہنے والی بگڑتی صورتِ حال کی پیش گوئی کے پیشِ نظر وہ کم سے کم چار ماہ کیلئے غذائی اجناس کا ذخیرہ کر یں اور دوسرے ضروری اقدامات اٹھائیں۔ نیز اپنے اپنے کنبے کے افراد کو یا اُن رشتے داروں کو جو کشمیر سیر و تفریح یا امر ناتھ یاترا میں شرکت کرنے کی غرض سے آئے ہوئے ہیں، 28 جولائی سے پہلے آبائی مقامات کیلئے روانہ کریں۔ بھارتی ذرائع ابلاغ نے خبر دی ہے کہ اس افسر کو کشمیر سے واپس بلایا گیا ہے کیونکہ ایسا حکم نامہ جاری کرنا اُس کے دائرہ اختیار میں نہیں تھا۔
اس ساری صورتِ حال کے پس منظر میں ریاست کی سابق وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی نے ممتاز سیاسی راہنما اور نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹر فاروق عبد اللہ سے درخواست کی ہے کہ وہ ہم خیال سیاسی جماعتوں کا ایک اجلاس بلائیں تاکہ معاملات پر غور و خوض اور صلاح مشورے کے بعد ایک مشترکہ حکمتِ عملی ترتیب دی جا سکے۔ اس دوران فاروق عبداللہ نے نئی دہلی میں وزیرِ اعظم نریندر مودی سے ملاقات کیلئے وقت مانگا ہے تاکہ انہیں دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کے بارے اپنی پارٹی کے موقف، کشمیر میں عوامی سطح پر پائی جانے والی بے چینی اور اس کے مضمرات سے باخبر کر سکیں۔ نیشنل کانفرنس کے ممبران نے، جن میں فاروق عبد اللہ بھی شامل ہیں، بھارتی پارلیمنٹ کے ایوانِ زیرین لوک سبھا میں بھی یہ معاملہ اٹھانے کیلئے اسپیکر سے اجازت مانگی ہے۔
اُدھر بھارت کے وزیرِ داخلہ امیت شاہ نے ریاست کی صورتِ حال پر غور کرنے کیلئے نئی دہلی میں حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے عہدیداروں اور دوسرے اہم لیڈروں کا ایک اجلاس بلایا ہے۔ منگل کو ہونے والے اس اجلاس میں پارٹی کے ریاستی صدر رویندر رینہ اور چند دوسرے عہدیداروں کو بھی مدعو کیا گیا ہے۔ اجلاس میں وزیرِ اعظم مودی کی شرکت بھی متوقع ہے۔