امدادی گروپوں نے متنبہ کیا ہے کہ افغانستان میں کووڈ کے کیسز میں اضافے اور خسرے کی خطرناک وباء نے ملک میں صحت کے کمزور نظام پر مزید بوجھ ڈال دیا ہے۔ صحت کی سہولیات پہلے ہی ہنگامی صورت حال سے نبرد آزما ہیں۔
انٹرنیشنل فیڈریشن آف ریڈ کراس اینڈ ریڈ کریسنٹ سوسائٹیز نے ایک بیان میں کہا ہے کہ افغانستان بھر میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو کم کرنے کے لیے فوری عالمی امداد کی ضرورت ہے جس میں صحت اور ٹیسٹنگ کی سہولتوں کے ساتھ ساتھ ویکسینیشن بھی درکار ہے ۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ کووڈ کی نئی لہر افغانستان کو بری طرح متاثر کر رہی ہے ۔ ٹیسٹنگ ناکافی ہے اور عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق ٹیسٹ کیے گئے کیسز میں سے نصف کا نتیجہ مثبت آ رہا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وائرس کا پھیلاو خطرناک سطح پر جاری ہے ۔
بیان کے مطابق فنڈز اور عملے کی کمی صورت حال سے نمٹنے میں دشواری پیدا کر رہی ہے۔ کووڈ وائرس سے نمٹنے والے درجنوں مراکز بند ہو گئے ہیں کیونکہ ان کے پاس ادویات، ضروری طبی سامان ، بلوں اور ہیلتھ ورکرز کی تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے فنڈز نہیں تھے۔
افغان ہلال احمر کے قائم مقام صدر، مولوی مطیع الحق خالص نے صحت کے فعال مراکز کی تعداد بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا ہے تاکہ کام کرنے والے چند ہسپتالوں پر دباؤ کم کیا جا سکے۔
SEE ALSO: افغانستان: 'اب اسپتالوں کو بھی 'لائف سپورٹ' کی ضرورت ہے'انہوں نے کہا کہ جیسے جیسے کووڈ انفیکشن شہروں سے ملک کے دور دراز کونوں تک پھیل رہا ہے ویسے ہی بین الاقوامی برادری کو صحت کی اہم دیکھ بھال، ٹیسٹنگ اور دیگر ضروری سہولتوں میں مدد دینے کی ضرورت ہے اور اس سے پہلے کہ افغانستان کے لوگوں کے لیے بہت دیر ہو جائے ایسا کرنا لازمی ہے۔
بین الاقوامی فیڈریشن آف ریڈکراس کے مطابق خسرے کی وبا نے بھی پچھلے ماہ افغانستان میں ہزاروں افراد کو متاثر کیا اور درجنوں کو ہلاک کر دیا۔
انٹرنیشنل ریڈکراس فیڈریشن کے ،افغانستان میں سربراہ،نیشاپور مغندی کا کہنا ہے کہ افغانستان میں خسرے کی وباء انتہائی خطرے کی علامت ہے،جہاں عشروں سے ملک کو ،بدترین قحط سالی اور خوراک کے بحران نے جکڑا ہوا ہےاور بچے جو غذائیت کی کمی کا پہلے ہی شکار ہیں خسرہ جیسے موذی مرض کی فوری پکڑ میں آ سکتے ہیں۔
ایک بین الاقوامی خیراتی ادارے، ڈاکٹرذ ود آؤٹ بارڈرز کے مطابق اس کی ٹیموں نے ہلمند اور ہیرات میں ، خسرہ کے لاتعداد مر یضوں کا علاج کیا ہے. خیراتی ادارے کا کہنا ہے کہ ہماری ٹیموں کو تشویش رہے گی جب تک مزید بچوں کو بیماری کے خلاف ویکسین نہیں دی جاتی۔
تنظیم کا کہنا ہے کہ طالبان پر طویل عرصے سے پابندیوں اور نئے حکمرانوں کے خلاف مالی اقدامات کا کئی گنا اثر ملک بھر میں محسوس کیا جا رہا ہے۔