پاکستان کی سیاست اور میڈیا کے کئی بڑے نام ماضی میں طلبہ تنظیموں کے رہنما رہ چکے ہیں۔ سابق فوجی صدر ضیاالحق نے تعلیمی اداروں میں طلبہ تنظیموں پر پابندی لگائی تھی اور مبصرین اس اقدام کو سیاست کی نرسری ختم کرنے سے تعبیر کرتے ہیں۔
وائس آف امریکہ یہ جاننے کی کوشش کر رہا ہے کہ طلبہ سیاست سے پاکستان کو کیا ملا؟ پابندی سے فائدہ ہوا یا نقصان؟ اور ضیاالحق کے بعد آنے والی حکومتوں نے اس پابندی کو ختم کیوں نہیں کیا۔
اس سلسلے میں پیپلز پارٹی کی رہنما ندا کھوڑو سے خصوصی گفتگو پیش کی جا رہی ہے جنھوں نے چند دن پہلے سندھ اسمبلی میں طلبہ یونینز کے خاتمے کی قرارداد پیش کی اور اسے بھاری اکثریت سے منظور کیا گیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
سوال: طلبہ یونینز پر پابندی کو پینتیس سال ہو چکے ہیں۔ آپ کو ان پر پابندی اٹھانے کی قرارداد پیش کرنے کا خیال کیسے آیا؟
ندا کھوڑو: میں نے یہ قرارداد پیش کرنا اس لیے ضروری سمجھا کہ طلبہ یونینز پر پابندی کو پینتیس سال ہو گئے ہیں۔ انیس سو چوراسی میں اس وقت کی فوجی حکومت نے یہ پابندی لگائی تھی۔ میں پہلی بار اسمبلی کی رکن بنی ہوں اس لیے میں چاہتی ہوں کہ اہم معاملات کی جانب توجہ دلاؤں۔ یہ ہمارا بنیادی فرض ہے۔ ابھی چار نومبر کو طلبہ نے کراچی پریس کلب پر مظاہرہ کیا۔ سندھ حکومت کے نمائندوں نے ان سے ملاقات کی اور ان کے مطالبات پورے کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ اس لیے مجھے خیال آیا کہ طلبہ یونینز پر پابندی کا خاتمہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔
ایسی قراردادیں پہلے بھی پیش کی جا چکی ہیں۔ سندھ اسمبلی میں 2017 میں بھی ایسی قرارداد پیش کی گئی تھی۔ بلاول بھٹو بھی طلبہ یونینز پر پابندی اٹھانے کے حق میں ہیں۔ ہم دوسرے صوبوں کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن سندھ میں اس قرارداد کو محکمہ قانون کو بھیجا جا رہا ہے اور یہاں پابندی ختم کر دی جائے گی۔
سوال: کیا وفاق کی منظوری یا رضامندی کے بغیر طلبہ یونینز کو صرف سندھ میں بحال کیا جا سکتا ہے؟
ندا کھوڑو: اٹھارہویں ترمیم کے بعد سندھ حکومت ایسا کر سکتی ہے۔ لیکن بہترین صورت یہی ہو گی کہ پورے پاکستان میں طلبہ یونینز بحال ہو جائیں۔ وفاق کیا چاہتا ہے اور دوسرے صوبوں کا کیا ردعمل ہے، ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔ لیکن سندھ حکومت انھیں بحال کرنے کے لیے پرعزم ہے، چاہے اس کے لیے قانون سازی کرنی پڑی۔
سوال: پیپلز پارٹی کو ماضی میں وفاق میں حکومت مل چکی ہے۔ پھر اس نے طلبہ یونینز پر پابندی کیوں نہیں اٹھائی؟
ندا کھوڑو: بینظیر بھٹو جب 1988 میں وزیراعظم بنیں تب انھوں نے طلبہ یونینز پر پابندی اٹھائی تھی لیکن وہ زیادہ عرصے تک بحال نہیں رہ سکی تھی۔ میرا خیال ہے کہ کچھ تکنیکی مسائل تھے اور وہ فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا تھا۔
سوال: طلبہ یونینز پر جب پابندی لگائی گئی، تب آپ بہت کم عمر ہوں گی۔ آپ ان یونینز کے بارے میں کیسے جانتی ہیں؟
ندا کھوڑو: جی ہاں، اس وقت میں بہت چھوٹی تھی لیکن تھوڑی بہت تاریخ پڑھی ہوئی ہے۔ جیسے ہم جانتے ہیں کہ تحریک پاکستان میں بھی علی گڑھ یونیورسٹی کے طلبہ کا اہم کردار تھا۔ میں خود کسی طلبہ تنظیم کی رکن نہیں رہی لیکن میں جانتی ہوں کہ طلبہ یونینز نئی نسل کے لیے ٹریننگ گراؤنڈ کی حیثیت رکھتی ہیں جہاں سے ذمے دار شہری نکلتے ہیں۔ وہاں تعمیری بحث مباحثہ ہوتا ہے۔ یونیورسٹی کے اندر مہم چلائی جاتی ہے۔ پوری دنیا میں طلبہ یونینز ہیں۔ ان سے قائدانہ صلاحیتوں والے نوجوان سامنے آتے ہیں۔ ان کی بدولت طلبہ انتخابی عمل کے بارے میں آگاہ ہوتے ہیں اور اس کی اہمیت پہچانتے ہیں۔ طلبہ یونینز مسائل کو اجاگر کرتی ہیں اور ان کے حل کی جانب پیشرفت کرنا سکھاتی ہیں۔
سوال: طلبہ تنظیموں کے بارے میں شکایت کی جاتی ہے کہ وہ لڑائی جھگڑے میں پڑ جاتی ہیں۔ کیا طلبہ یونینز کی بحالی سے تشدد کو فروغ نہیں ملے گا؟
ندا کھوڑو: طلبہ ماضی میں غلط کاموں میں استعمال ہوتے تھے۔ اس کا انحصار طلبہ پر بھی ہے اور جامعات پر بھی کہ وہاں کس طرح کی تربیت دی جاتی ہے۔ ہم امید کر سکتے ہیں کہ طلبہ یونینز کو اچھے پلیٹ فارم کی طرح استعمال کیا جائے گا۔ میں نے قرارداد میں یہ بھی واضح کیا کہ طلبہ یونینز بحال کی جائیں تو تعلیمی اداروں کو ان کا ضابطہ اخلاق بھی طے کرنا چاہیے تاکہ ان کا غلط استعمال نہ کیا جاسکے۔
سوال: نوجوان نسل کو تعلیم پر توجہ دینی چاہئیے۔ کیا سیاست میں دلچسپی سے ان کی تعلیم کا ہرج نہیں ہو گا؟
ندا کھوڑو: تعلیم پر تو بے شک توجہ دینی چاہیے لیکن مستقبل کے قائدین انہی طلبہ یونینز سے نکلیں گے۔ مجھے یقین ہے کہ پاکستان کی نئی نسل سے مستقبل کے بہترین رہنما مل سکتے ہیں۔ وہ ملک کا مستقبل ہیں۔ تعلیم کے ساتھ سیاسی معلومات بھی ہونی چاہئیے، دنیاداری کا علم ہونا چاہیے، ملک میں کیا ہو رہا ہے، یہ جاننا چاہیے۔ قائدانہ صلاحیت کے حصول کا آغاز کلاس روم سے ہوتا ہے لیکن کلاس روم سے باہر کی تربیت بھی درکار ہوتی ہے۔
سوال: طلبہ یونینز میں ہمیشہ لڑکے پیش پیش رہے ہیں۔ لڑکیوں نے اس جانب توجہ نہیں دی۔ اگر پابندی اٹھائی گئی تو کیا آپ کے خیال میں تبدیلی آئے گی؟
ندا کھوڑو: پیپلز پارٹی ہمیشہ خواتین کو مواقع دینے پر یقین رکھتی ہے۔ بینظیر بھٹو وزیر اعظم رہ چکی ہیں۔ پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی کی اسپیکر بھی ایک خاتون کو بنوایا۔ دنیا بھر میں خواتین کو بااختیار بنانے کا شعور آ گیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ جب طلبہ یونینز پر پابندی ختم ہو جائے گی تو لڑکیاں ان میں بھرپور طریقے سے حصہ لیں گی۔