نائیجر کی جہاں گذشتہ ہفتے فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔ فوجی راہنماؤں نے اب ایک عبوری حکومت قائم کرکے Mahamadou Danda کو وزیر اعظم نامزد کر دیا ہے، جو عام انتخابات کرائیں گے۔ دندا گذشتہ ایک عشرے سے نائیجر انتظامیہ کا حصہ رہے ہیں۔
نائیجر کی فوجی بغاوت کے قائدین کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت تک ملک کے نئے وزیر اعظم پر اپنی بالادستی قائم رکھیں گے جب تک ملک کا نیا آئین تیار نہیں ہو جاتا اور انتخابات نہیں ہو جاتے، تاہم انتخابات کے لئے ابھی کسی نئی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا۔ گزشتہ جمعرات کو نائیجر کی فوج نے ملکی حالات میں پیدا ہونے والی زبردست سیاسی کشیدگی کے بعد صدر Mamadou Tandjaکو ان کے ایک سالہ اقتدار سے الگ کر دیا تھا۔ واشنگٹن کے ماہرین افریقی ملک نائیجر کے حالات پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ۔
ہاورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر عبدالکریم بینگورا کہتے ہیں کہ ہونا تو یہ چاہئے کہ فوج بیرکوں میں رہے، اور راج عوام کا ہو، مگر جب ساری طاقت ایک آمر کے ہاتھ میں جمع ہو جائے تو کیا متبادل رہ جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نائیجر کے صدر مسٹر تندجا کی غلطیاں ایک سے زیادہ تھیں۔
انہوں نے کہا کہ سابق صدر نے آئین معطل کر دیا، آئینی عدالتوں نے ان کے اقدام کی مخالفت کی مگر انہوں نے اسے نظر انداز کرتے ہوئے ملک میں ریفرنڈم کرایا جس کے نتائج قابل بھروسہ نہیں تھے۔
افریقی امور کے لئے امریکہ کے نائب سیکرٹری آف سٹیٹ جانی کارسن کا کہنا ہے کہ کوئی فوجی بغاوت اچھی نہیں ہوتی اور نائیجر میں بھی جمہوریت ناممکن نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم ملٹری قیادت کی حمایت کر رہے ہیں مگر اس وقت تک جب تک وہ اپنے وعدے پر قائم رہیں۔ اگر وہ جمہوریت قائم کرنے کی بات کرتے ہیں تو ایسا بلا تاخیر ہونا چاہئے۔
افریقی سفارتکار وں نے گزشتہ ہفتے نائیجر کے دارلحکومت نیامے میں ملاقات کی اور امید ظاہر کی کہ فوجی بغاوت کے راہنما جمہوریت کے قیام میں سنجیدگی کا مظاہرہ کریں گے۔
اکنامک کمیونٹی آف ویسٹ ایفریقن سٹیٹس کے محمد ابن چیمبس کہتے ہیں کہ انہوں نے ہمیں یقین دلایا ہے کہ نائیجر میں سب کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا۔ اور تمام سیاسی قوتوں کے درمیان بات چیت کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔
نائیجر دنیا کے غریب ترین ملکوں میں سے ایک ہے۔ اگرچہ یہ ملک یورینیم جیسے معدنی وسائل سے مالا مال ہے مگر اسے 1960ء میں فرانس سے آزادی حاصل کی تھی۔ مگر اس کے بعدکی تاریخ 1999ء تک پے در پے فوجی بغاوتوں سے عبارت ہے۔ حالیہ فوجی بغاوت سے اپنا اقتدار کھونے والے صدر Mamadou Tandja بھی 1999ء کی فوجی بغاوت کے نتیجے میں اقتدار میں آئے تھے۔
سینی اومارو نائیجرکی سابق حکمراں جماعت کے سربراہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم18 فروری کی فوجی بغاوت کی پر زور مذمت کرتے ہیں، اور اپنے ملک کی بگڑتی ہوئی سیاسی، معاشرتی اور معاشی صورتحال کے لئے کئی دوسرے عناصر کوذمہ دار ٹہراتے ہیں۔
لیکن ایسا نہیں ہے کہ فوجی بغاوت کو عوام کے کسی طبقے کی حمایت حاصل نہ ہو۔ کئی عام شہری اس کی حمایت کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔