انتہا پسند گروپ بوکو حرام کے خلاف سات سال سے جاری جنگ نے نائیجیریا کے شمال مشرقی علاقے میں انسانی ہمدردی کے حوالے سے ہنگامی صورت حال پیدا کردی ہے۔
ریاست بورنو تشدد سے سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے اور اب خوراک کی بڑھتی ہوئی قلت کے مسائل سر اٹھا رہے ہیں۔
نائیجیریا کی شمال مشرقی ریاست بورنو میں شديد تنازع کے نتیجے میں وہاں کے باشندے مکمل طور پر انسانی ہمدردی کی امداد سے محروم ہو چکے ہیں۔
نائیجیریا کی حکومت نے وہاں خوراک اور غذائیت کی ہنگامی صورت حال کا اعلان کیا ہے اور اس کی وجہ سے کچھ ایسے علاقوں میں جو اس سے پہلے عسکریت پسند گروپ بوکو حرام کے قبضے میں تھے، وہاں اندازاً دو سال کے عرصے میں پہلی بار انسانی ہمدوردی کی مدد کرنے والوں کو اب کچھ محدود رسائی حاصل ہو رہی ہے۔
نائیجیریا کے دس لاکھ سے زیادہ باشندے دیہاتوں پر حملوں، خودکش بم دھماکوں اور فوجی کارروائیوں سے بچنے کے لیے، جو بوکو حرام کی شورش کا خاصہ رہے ہیں، بھاگ کر ریاست بورنو کے صدر مقام میدوگروی میں اکھٹے ہو چکے ہیں ۔
ان میں سے بہت سے افراد کچی آبادیوں میں رہ رہے ہیں جہاں خوراک اور پینے کے صاف پانی تک ان کی رسائی بہت محدود ہے۔
شہر بھر میں لوگ غیر آباد زمینوں، نا مکمل عمارتوں اور درختوں کے نیچے اپنا سر چھپائے ہوئے ہیں۔
زندہ رہنے کے لیے کئی لوگ کھیتوں سے اکھٹے کیے گئے پتوں پر اپنی گذر بسر کر رہے ہیں۔ بعض أوقات انہیں دو یا تین دن تک بھوکا رہنا پڑتا ہے۔ انہیں اس صورت حال کی توقع نہیں تھی۔
ایک پناہ گزین خاتون یا فلماتا کہتی ہیں کہ ’’ہم بہت امیدوں کے ساتھ میدوگروی آئے تھے کہ اگر ہم وہاں گئے تو ہماری یہ چیزیں اور معاملات بہتر ہو جائیں گے۔‘‘
وہ ایک عمر رسیدہ خاتون ہیں ۔ انہوں نے درختوں کی شاخوں اور بانسوں کی مدد سے میدان کے وسط میں اپنے لیے ایک خیمہ بنایا ہے، جہاں 13 ہزار سے زیادہ لوگ رہ رہے ہیں اور زندہ رہنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ملک کے اندر بے گھر ہونے والے ان پناہ گزینوں کی مدد کے لیے کام کرنے والی ریبیکا کہتی ہیں کہ وہ غذائی قلت کا شکار ہیں کیونکہ وہ بھوکے رہتے ہیں اور انہیں مناسب خوراک نہیں ملتی۔ اور ان کے لیے خوراک موجود نہیں ہے۔
ریبیکا سمتھ ایک نرس ہیں اور ان کا تعلق علاج معالجے کی سہولتیں فراہم کرنے والے ایک گروپ ’ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈر‘سے ہے۔ وہ گروپ کے قائم کردہ اسپتال میں انتہائی شديد بیماریوں میں مبتلا کچھ مریضوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں۔
’’یہ مریض بچے غذائی قلت کا شکار ہیں جو یہاں سانس کی تکلیف کی وجہ سے لائے گئے تھے اور انہیں آکسیجن کے ذریعے علاج کی ضرورت ہے۔ انہیں انتقال خون کی ضرورت ہے ۔۔۔ اور یہ بچے بہت ہی زیادہ بیمار ہیں۔ یہاں لائے جانے والے بچوں کے عمومی امراض خسرہ اور کالی کھانسی وغیرہ ہیں۔‘‘
ایک اندازے کے مطابق شمال مشرقی نائیجیریا میں تقریباً 6 لاکھ 17 ہزار بچے شديد غذائی قلت میں مبتلا ہیں جب کہ ان میں سے ڈھائی لاکھ بچے صرف ریاست بورنو میں ہیں۔
امدادی اداروں نے ریاست بورنو کے کئی حصوں میں قحط کے امکان سے خبردار کیا ہے، جہاں سرکاری فورسز اور بوکو ہرام کے درمیان لڑائیوں سے کاشت کاری کو نقصان پہنچا ہے اور کچھ علاقوں کے لیے غیر ملکی امداد کی ترسيل رک گئی ہے۔
مقامی منڈیوں میں خوراک کی قلت کی وجہ سے کھانے پینے کی چیزوں کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔
حکومت بے گھر ہونے والے پناہ گزینوں کے کیمپوں کا بندوبست کرتی ہے لیکن وہ ان سب کے لیے، جنہیں پناہ گاہوں کی ضرورت ہے، ناکافی ہیں۔ اور نائیجیریا کے کچھ باشندوں کا کہنا ہے کہ کیمپوں میں خوراک کی تقسیم غیر منصفانہ ہے۔
میکا مصطفیٰ ایک گودام میں درجنوں دوسرے خاندانوں کے ساتھ رہ رہی ہیں۔ وہ خود کو درپیش مسائل کا ذکر کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’’ہمیں اس کی وجہ معلوم نہیں ہے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے لیکن خوراک تقسیم کرنے والے کیمپ میں ہر ایک کو خوراک نہیں دیتے۔ کچھ لوگوں کو کھانے پینے کی چیزیں زیادہ ملتی ہیں اور کچھ کو نہیں ملتیں۔‘‘