نائجیریا کی حکومت نے کہا ہے کہ اپریل میں اغوا ہونے والی 200 سے زائد طالبات کی رہائی کی شرائط طے کرنے کے لیے شدت پسند تنظیم بوکو حرام کے ساتھ مذاکرات آئندہ ہفتے کیے جائیں گے۔
نائجیرین حکومت اور بوکو حرام کے درمیان جمعے کو جنگ بندی کا معاہدہ طے پایا تھا جس میں شدت پسند تنظیم نے تمام طالبات کی رہائی کا حکومتی مطالبہ تسلیم کرلیا تھا۔
بوکو حرام کےساتھ جنگ بندی کے معاہدے کا اعلان نائجیرین افواج کے سربراہ جنرل ایلکس بادے نے جمعے کو کیا تھا اور تمام فوجی افسران کو ہدایت کی تھی کہ وہ معاہدے کے احترام میں شدت پسند تنظیم کے خلاف کارروائیاں بند کردیں۔
فریقین کے درمیان جنگ بندی کے لیے مذاکرات چاڈ میں ہوئے تھے جن میں چاڈ کے صدر ادریس دیبے اور کیمرون حکومت کے اعلیٰ عہدیداران نے بھی شرکت کی تھی۔
بوکو حرام کے ساتھ مذاکرات کرنے والے نائجیرین صدر کے مشیرِ خاص حسان طوکر نے 'وائس آف امریکہ' کی 'ہوسا سروس' کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ طالبات کی رہائی کے لیے مذاکرات آئندہ ہفتے پڑوسی ملک چاڈ میں ہوں گے۔
جمعے کو 'وی او اے' سے بات کرتے ہوئے نائجیرین صدر کے مشیر کا کہنا تھا کہ شدت پسند تنظیم کے ساتھ طالبات کی رہائی کے معاملے پر ماضی میں ہونے والے مذاکرات بے نتیجہ رہے ہیں لیکن اس بار انہیں امید ہے کہ بات چیت کامیاب رہے گی۔
انہوں نے کہا کہ نائجیرین حکومت نے مذاکراتی عمل کا آغاز کردیا ہے اور وہ بوکو حرام کا مسئلہ حل کرنے کے لیے ایک قدم آگے بڑھنے کو تیار ہے۔
بوکو حرام کی جانب سے تاحال حکومت کے ساتھ معاہدے کے سرکاری دعووں پر کوئی باضابطہ ردِ عمل سامنے نہیں آیا ہے۔
نائجیریا میں گزشتہ پانچ برسوں سے جاری 'بوکو حرام' کی کارروائیوں میں اب تک ہزاروں افرا دہلاک ہوچکے ہیں اور تنظیم کی سرگرمیوں کا دائرہ کار گزشتہ برس سےپڑوسی ملک کیمرون تک پھیل گیا ہے۔
بوکو حرام کا دعویٰ ہے کہ وہ نائجیریا کے مسلم اکثریتی شمالی علاقے میں اسلامی مملکت کے قیام کی جدوجہد کرر ہی ہے تاہم تنظیم کے جنگجووں کی جانب سے عام شہریوں اور دیہاتیوں پر بہیمانہ حملوں نے نائجیرین عوام کی مشکلات اور خوف میں اضافہ کردیا ہے۔
شدت پسندوں نے رواں سال اپریل میں نائجیریا کے شمال مشرقی علاقے کے ایک دور دراز گاؤں چیبوک کے ایک اسکول پر حملہ کرکے 270 طالبات کو اغوا کرلیا تھا۔
بعد ازاں 57 طالبات مختلف اوقات میں شدت پسندوں کی تحویل سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئی تھیں تاہم 200 سے زائد طالبات چھ ماہ گزرنے کے باوجود بدستور شدت پسندوں کی تحویل میں ہیں۔
امریکہ سمیت کئی مغربی ملکوں کی جانب سے طالبات کی تلاش کے لیے جاری آپریشن میں نائجیرین کی حکومت اور فوج کے ساتھ تعاون کے باوجود ان طالبات کی رہائی عمل میں نہیں آسکی ہے جس پر نائجیرین حکومت کو اندرو ن و بیرونِ ملک سخت تنقید کا سامنا ہے۔