فوج کے سربراہ نے سپاہیوں سے کہا کہ انہیں اب جنگ کے موڈ میں آجا نا چاہیئے کیوں کہ اب انہیں بوکو حرام کو کچلنا ہے۔ یہ طالبان جیسا مذہبی فرقہ ہے جس پر 2009 میں شورش کے آغاز سے اب تک تقریباً ایک ہزار اموات کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ انھوں نے اس جنگ کے لیے زیادہ پیسہ فراہم کرنے کا وعدہ بھی کیا۔
صرف اس سال میں ہی بوکو حرام نے سینکڑوں لوگوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے، لیکن اس نے ایسٹر کے تہوار کے موقع پر حملے کے بارے میں اب تک کچھ نہیں کہا ہے۔ اس حملے میں جو شمال میں کادونا کے شہر میں ایک چرچ کے نزدیک ہوا، 40 افراد ہلاک ہوئے ۔ ماہرین کہتے ہیں کہ بوکو حرام نے حکومت کو بار بار انتباہ کیا تھا کہ وہ ایسٹر کے موقعے پر حملہ کریں گے، اور یہ گروپ جو دھمکیاں دیتا ہے انہیں پورا کرتا ہے۔
بوکو حرام کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد نائجیریا میں اسلامی ریاست قائم کرنا ہے، لیکن مبصرین کہتے ہیں کہ ان کے اصل عزائم واضح نہیں ہیں۔ ابوجا میں سنٹر فار ڈیموکرسی اینڈ ڈویلپمنٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر جبرن ابراہیم کہتے ہیں کہ حکومت کے ساتھ اس گروہ کے حالتِ جنگ میں ہونے وجہ بالکل وہی ہے جو حکومت کے اس گروپ کے ساتھ جنگ کرنے کی ہے۔ بوکوحرام کا گروپ محسوس کرتا ہے کہ اس پر حملہ کیا جا رہا ہے ۔
ابراہیم سیکیورٹی ایجنسیوں کو تشدد میں اضافے کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں کیوں کہ انھوں نے مشتبہ افراد کو قید کرنے کے بجائے انہیں گولی ماردی، اور اس عمل کا آغاز 2009 میں گروپ کے بانی کے سرِ عام قتل سے کیا۔’’پولیس کا طریقہ یہ ہے کہ وہ قانونی کارروائی کیے بغیر ، لوگوں کو مار ڈالتی ہے ۔ اس تحریک کے لیڈر کے کیس میں، یہ ناقابلِ یقین بات ہوئی کہ گرفتاری کے ایک گھنٹے کے بعد ، انہیں ہلاک کر دیا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان سے کسی قسم کی انٹیلی جنس حاصل کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی ۔‘‘
ابراہیم کہتے ہیں کہ یہ بھی ممکن ہے کہ اس تنازعے کے جاری رہنے میں سیکورٹی فورسز کا فائدہ ہو۔’’یہ سوال بھی پوچھا جا رہا ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ سیکورٹی ایجنسیوں کو اس تصادم کے جاری رہنے میں اپنا فائدہ نظر آ رہا ہو کیوں کہ جیسے جیسے یہ مسئلہ سنگین سے سنگین تر ہوا ہے، سیکورٹی کے بجٹ میں بھی اسی تناسب سے اضافہ ہوا ہے ۔‘‘
گذشتہ ہفتے، سرکاری عہدے داروں نے کہا کہ ملک کی تقریباً تین فیصد مقامی حکومتوں کو چھوڑ کر، ملک کے بقیہ حصے سے بوکوحرام کا صفایا کر دیا گیا ہے۔ لیکن نائجیریا کے صدر گڈ جوناتھن نے یہ بھی کہا ہے کہ حکومت کے اندر بھی بوکو حرام کے ہمدرد موجود ہیں اور اس وجہ سے اس گروپ سے لڑنا اور زیادہ مشکل ہو گیا ہے ۔
یونیورسٹی آف ابوجا میں انسٹی ٹیوٹ فار اینٹی کرپشن اسٹڈیز کے ڈائریکٹر، ڈاکٹر کبیر ماٹو کہتے ہیں کہ بوکو حرام ایک قومی مسئلہ ہے جسے حکام صحیح طور سے سمجھ نہیں پائے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ حکومت بوکو حرام کو سیکورٹی کا مسئلہ سمجھتی ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک کہیں بڑے سماجی بحران کا حصہ ہے ۔ شمالی مشرقی نائجیریا ملک کا غریب ترین حصہ ہے جہاں بیشتر لوگوں کی زندگی کی بنیادی ضروریات بھی میسر نہیں۔ انہیں غذا اور علاج معالجے کی سہولتیں تک دستیاب نہیں ہیں ۔ ماٹو کہتے ہیں’’جو لوگ ہماری قیادت کر رہے ہیں انہیں مطلق معلوم نہیں کہ اصل مسئلہ کیا ہے ۔ اور اگر آپ مسئلے کو سمجھتےہی نہیں، تو پھر آپ اسے حل کیسے کر سکتے ہیں ۔‘‘
وہ کہتے ہیں کہ شمالی نائجیریا کے لوگوں کو تعلیم کی سہولتیں میسر نہیں ہیں۔ بیشتر طالب علم ایسے اسکولوں میں جاتے ہیں جہاں صرف قرآن پڑھا یا جاتا ہے ۔ انہیں مغربی طرز کی تعلیم نہیں ملتی جو ملازمتوں کے حصول میں یا یونیورسٹیوں میں کام آئے ۔ وہ کہتےہیں کہ عسکریت پسند عام طور سے نوجوان لوگ ہیں، جن کے پاس کرنے کو کچھ نہیں ہے، نہ وہ کہیں اور جا سکتے ہیں، اور ان کا کوئی مستقبل ہے ۔
بوکو حرام کا دعویٰ ہے کہ اس کے القاعدہ کے ساتھ رابطے ہیں۔ لیکن ماہرین کہتے ہیں کہ شاید ایسا کہنا صحیح نہیں ہے ۔ ڈاکٹر حسینی عبدو، جو ایکشن ایڈ ان نائیجیریا کے سربراہ ہیں، کہتے ہیں کہ بوکو حرام فی الحال صرف نائجیریا کے لیے خطرہ ہے، لیکن اگر اس کی روک تھام نہ کی گئی، تو یہ القاعدہ کی شاخوں کو مضبوط بنا سکتی ہے ۔
’’القاعدہ کا یہ رجحان بہت مضبوط ہے کہ وہ یہ دیکھے کہ وہ ان میں سے کچھ لوگوں سے کس طرح رابطہ قائم کر سکتی ہے اور بین الاقوامی دہشت گردی کی سرگرمیوں میں کس طرح استعمال کر سکتی ہے ۔‘‘
عبدو یہ بھی کہتے ہیں کہ بوکو حرام کے حملوں کی لہر، نائجیریا میں مذہبی انتہا پسندی کی لہر کا حصہ ہے جس میں مسلمان اور عیسائی دونوں شامل ہیں ۔ اور جب افریقہ کے اس سب سے بڑی آبادی والے اور سب سے زیادہ تیل بر آمد کرنے والے ملک میں غربت میں اضافہ ہوتا ہے، تو بعض اوقات ایسا لگتا ہے کہ تشدد کا مقصد سوائے اس کے کچھ اور نہیں ہے کہ لوگوں کو ہلاک کیا جائے ۔