اس مہینے کے شروع میں عسکریت پسند تنظیم بوکو حرم نے ملک کے شمالی حصے میں واقع کئی شہروں اور قصبوں میں موبائل فون کے ٹاورز پر حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
نائجیریا کے ایک اسلامی عسکریت پسند تنظیم بوکو نے چند ہفتے پہلے موبائل فون کی سروس پر حملہ کرکے 30 ٹاورز تباہ کردیے تھے۔ شورش سے متاثرہ قصبوں کے لوگوں کا کہناہے کہ موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس محدود ہوجانے کے بعدان کی زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی ہے۔
ملک کے مرکزی شہر ابوجا میں انٹرنیٹ سروس اتنی کمزور ہے کہ کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ موبائل فون پر آواز سنائی دے۔ جب کوئی کال کی جاتی ہے تو عموماً سکرین پر یہ پیغام ابھرتا ہے کہ مطلوبہ فون بند ہے یا نیٹ ورک مصروف ہے۔
اس مہینے کے شروع میں عسکریت پسند تنظیم بوکو حرم نے ملک کے شمالی حصے میں واقع کئی شہروں اور قصبوں میں موبائل فون کے ٹاورز پر حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
انہوں نے موبائل فون کمپنیوں پر الزام لگایا تھا کہ وہ ان کے خلاف جاسوسی میں حکومت کی مدد کررہی ہیں۔
وائس آف امریکہ کے نمائندے نے ایک قصبے میدغری کے لوگوں سے بات کی ۔ ان کا کہناتھا کہ موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس نہ ہونے سے ان کے کاربار تباہ ہورہے ہیں اور وہ خود کو دنیاسے کٹا ہوا محسوس کرتے ہیں۔
میدغری کوبوکو حرم کے ایک مضبوط ٹھکانے کے طورپر دیکھا جاتا ہے۔ صرف اس سال یہاں تشدد میں 600 سے زیادہ لوگ مارے جاچکے ہیں۔
عسکریت پسند گرجا گھروں، اسکولوں، مارکیٹوں، اخبارات کے دفاتر، سرکاری عہدے داروں اور سیکیورٹی اہل کاروں کو اپنا ہدف بناچکے ہیں۔
یونیورسٹی آف ابوجا میں انٹی کرپشن اسٹڈیز کے شعبے کے سربراہ کبیر ماٹو کہتے ہیں کہ شورش کی بنیادی وجہ امیر اور انتہائی غریب کے درمیان وسیع خلیج ہے اور ملک کی زیادہ تر آبادی انتہائی غریب اور مفلس لوگوں پر مشتمل ہے۔
ان کا یہ بھی کہناتھا کہ ماورائے عدالت ہلاکتیں بھی باکو حرم عسکریت پسندوں کے اضافے کا سبب بن رہی ہیں۔
باکو تنظیم کا کہناہے کہ وہ ملک میں اسلامی قوانین نافذ کرنا چاہتے ہیں۔
وائس آف امریکہ کے نمائندے کا کہناہے کہ میدغری میں فون کمپنیاں لوگوں کو صبر کرنے کامشورہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ سروس کی بحالی کے لیے کام کررہی ہیں جب کہ ایک کمپنی کے اہل کار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سروس کی بحالی کے لیے کچھ بھی نہیں کیا جارہا کیونکہ کارکنوں کو خطرہ ہے کہ اس کے نتیجے میں عسکریت پسند انہیں قتل کردیں گے۔
موبائل فون کمپنیوں کے زیادہ تر کارکن عسکریت پسندوں کے خوف سے علاقہ چھوڑ کر جاچکے ہیں۔
سیکیورٹی فورسز علاقے میں پولیس کی تعداد بڑھانے اور ٹیلی کام آلات کو تحفظ فراہم کرنے کے وعدے کرچکی ہیں ، لیکن مشکل یہ ہے کہ نائجیریا میں پولیس کاسپاہی ہو فوجی اہل کارہر کوئی اپنی ڈیوٹی کے لیے موبائل فون کا محتاج ہے، جو کام نہیں کررہا۔
ملک کے مرکزی شہر ابوجا میں انٹرنیٹ سروس اتنی کمزور ہے کہ کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ موبائل فون پر آواز سنائی دے۔ جب کوئی کال کی جاتی ہے تو عموماً سکرین پر یہ پیغام ابھرتا ہے کہ مطلوبہ فون بند ہے یا نیٹ ورک مصروف ہے۔
اس مہینے کے شروع میں عسکریت پسند تنظیم بوکو حرم نے ملک کے شمالی حصے میں واقع کئی شہروں اور قصبوں میں موبائل فون کے ٹاورز پر حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
انہوں نے موبائل فون کمپنیوں پر الزام لگایا تھا کہ وہ ان کے خلاف جاسوسی میں حکومت کی مدد کررہی ہیں۔
وائس آف امریکہ کے نمائندے نے ایک قصبے میدغری کے لوگوں سے بات کی ۔ ان کا کہناتھا کہ موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس نہ ہونے سے ان کے کاربار تباہ ہورہے ہیں اور وہ خود کو دنیاسے کٹا ہوا محسوس کرتے ہیں۔
میدغری کوبوکو حرم کے ایک مضبوط ٹھکانے کے طورپر دیکھا جاتا ہے۔ صرف اس سال یہاں تشدد میں 600 سے زیادہ لوگ مارے جاچکے ہیں۔
عسکریت پسند گرجا گھروں، اسکولوں، مارکیٹوں، اخبارات کے دفاتر، سرکاری عہدے داروں اور سیکیورٹی اہل کاروں کو اپنا ہدف بناچکے ہیں۔
یونیورسٹی آف ابوجا میں انٹی کرپشن اسٹڈیز کے شعبے کے سربراہ کبیر ماٹو کہتے ہیں کہ شورش کی بنیادی وجہ امیر اور انتہائی غریب کے درمیان وسیع خلیج ہے اور ملک کی زیادہ تر آبادی انتہائی غریب اور مفلس لوگوں پر مشتمل ہے۔
ان کا یہ بھی کہناتھا کہ ماورائے عدالت ہلاکتیں بھی باکو حرم عسکریت پسندوں کے اضافے کا سبب بن رہی ہیں۔
باکو تنظیم کا کہناہے کہ وہ ملک میں اسلامی قوانین نافذ کرنا چاہتے ہیں۔
وائس آف امریکہ کے نمائندے کا کہناہے کہ میدغری میں فون کمپنیاں لوگوں کو صبر کرنے کامشورہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ سروس کی بحالی کے لیے کام کررہی ہیں جب کہ ایک کمپنی کے اہل کار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سروس کی بحالی کے لیے کچھ بھی نہیں کیا جارہا کیونکہ کارکنوں کو خطرہ ہے کہ اس کے نتیجے میں عسکریت پسند انہیں قتل کردیں گے۔
موبائل فون کمپنیوں کے زیادہ تر کارکن عسکریت پسندوں کے خوف سے علاقہ چھوڑ کر جاچکے ہیں۔
سیکیورٹی فورسز علاقے میں پولیس کی تعداد بڑھانے اور ٹیلی کام آلات کو تحفظ فراہم کرنے کے وعدے کرچکی ہیں ، لیکن مشکل یہ ہے کہ نائجیریا میں پولیس کاسپاہی ہو فوجی اہل کارہر کوئی اپنی ڈیوٹی کے لیے موبائل فون کا محتاج ہے، جو کام نہیں کررہا۔