نائجیریا کی فوج نے کہا ہے کہ اس کے دستوں نے ملک کے شمال مشرقی علاقے میں قائم بوکو حرام کے صدر دفتر پر قبضہ کرلیا ہے۔
جمعے کو 'ٹوئٹر' پر جاری بیان میں نائجیرین فوج کے ترجمان نے کہا ہے کہ فوجی دستوں نے ریاست بورنو کے قصبے گوازا کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد وہاں قائم بوکو حرام کے صدر دفتر کو تباہ کردیا ہے۔
حکام کے مطابق شدت پسند اس مرکز سے نائجیریا کے شمالی علاقوں پر قائم اپنی متوازی حکومت چلا رہے تھے جسے وہ "خلافت" قرار دیتے ہیں۔
فوجی ترجمان کے بیان میں کہا گیا ہے کہ جمعے کی صبح کی جانے والی کارروائی کی مزید تفصیلات جلد جاری کی جائیں گی۔
نائجیرین فوج نے یہ کارروائی ملک میں ہونے والے صدارتی اور پارلیمانی انتخابات سے صرف ایک روز قبل کی ہے۔
ہفتے کو ہونے والے انتخابات میں صدر گڈلک جوناتھن اور ان کی جماعت 'پی ڈی پی' کو حزبِ اختلاف کے اتحاد 'اے پی سی' اور اس کے مشترکہ صدارتی امیدوار اور سابق فوجی صدر محمد بوہاری سے سخت مقابلہ درپیش ہے۔
انتخابات سے قبل سامنے آنے والے رائے عامہ کے جائزوں میں کہا گیا ہے کہ دونوں جماعتوں اور ان کے صدارتی امیدواروں کے درمیان مقابلہ اتنا سخت ہے کہ کسی کی فتح کی پیش گوئی نہیں کی جاسکتی۔
انتخابات سے ایک روز قبل ٹی وی پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے نائجیرین صدر جوناتھن نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ انتخابی عمل کے دوران پرتشدد واقعات پیش آسکتے ہیں۔
جمعے کو اپنے خطاب میں صدر نے نائجیرین عوام سے اپیل کی کہ وہ انتخابی عمل کے دوران اور اس کے بعد کسی پر تشدد کارروائی کا حصہ نہ بنیں۔
انہوں نے کہا کہ مسلح افواج اور سکیورٹی ادارے انتخابی عمل یا امن و امان میں خلل ڈالنے والے کسی بھی شخص یا گروہ سے نبٹنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔
جمعرات کو صدر جوناتھن اور ان کے حریف جنرل (ر) بوہاری نے اعلان کیا تھا کہ اگر انتخابات "آزادانہ، منصفانہ اور شفاف" ہوئے تو وہ ان کے نتائج تسلیم کریں گے۔
نائجیریا میں اس سے قبل انتخابی نتائج پر تنازعات کھڑے ہوتے رہے ہیں جن کا ردِ عمل عموماً پرتشدد ہوتا ہے۔ سنہ 2011ء کے انتخابات کے بعد فریقین میں ہونے والی جھڑپوں میں 800 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
لیکن اس بار انتخابات کو امیدواروں کے حامیوں سے زیادہ بوکو حرام کے شدت پسندوں سے خطرہ ہےجس کے 2009ء سے جاری حملوں میں ہزاروں نائجیرین ہلاک ہوچکے ہیں۔
نائجیرین فوج نے پڑوسی ملکوں چاڈ، نائیجر اور کیمرون کے فوجی دستوں کی مدد سے حالیہ ہفتوں کے دوران بوکو حرام کے خلاف کئی کامیابیاں حاصل کی ہیں اور ریاست بورنو، یوب اور اداماوا میں شدت پسندوں کے زیرِ قبضہ بیشتر قصبوں اور دیہات کا کنٹرول حاصل کرلیا ہے۔