اقوام متحدہ میں امریکی سفیر، نِکی ہیلی نے کہا ہے جوہری طاقت والے ملک کے طور پر شمالی کوریا کا رویہ ’’اطمینان دلانے والا نہیں‘‘ ہے۔
اُنھوں نے کہا، ’’چونکہ شمالی کوریا اور جنوبی کوریا نے آپس میں ہاتھ ملا لیا ہے، اِس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ خطرہ ٹل گیا ہے‘‘۔
نِکی ہیلی نے یہ بات بدھ کے روز نیو یارک میں ’وائس آف امریکہ‘ کی نمائندہ، گریٹا وان سستران سے گفتگو کے دوران کہی۔
امریکی سفیر نے شمالی اور جنوبی کوریا، فلسطین اور روہنگا سمیت، متعدد موضوعات پر اپنا نکتہٴ نظر پیش کیا۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’امریکہ اور بین الاقوامی برادری اِس بات کی خواہاں ہے کہ شمالی کوریا اپنے جوہری ہتھیار تلف کرے۔ ہمیں اُس وقت کا انتظار کرنا ہوگا کہ وہ کوئی نئی سرگرمی یا تجربہ نہ کرے۔ جب ایسا وقت آئے گا، اُس مرحلے پر ہی ہم فیصلہ کریں گے‘‘۔
لیکن، اُنھوں نے کہا کہ ’’تمام کھیل درحقیقت شمالی کوریا کے ہاتھ میں ہے کہ وہ معاملے سے کس طرح نمٹتا ہے۔ اگر وہ درست سمت بڑھے گا تو ہمیں اُن کے ساتھ کام کرکے خوشی ہوگی، اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو پھر ہمارے پاس دیگر آپشن موجود ہیں‘‘۔
امریکہ نے امداد اور تعمیرات سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے (یو این آر ڈبلیو اے) کو چھ کروڑ 50 لاکھ ڈالر کا عطیہ روک دیا ہے، جس کی مدد سے وہ 50 لاکھ رجسٹرڈ فلسطینی مہاجرین کی دیکھ بھال کرتا ہے۔
ایک سوال پر، سفیر نے کہا کہ ’’ہم غلط رویے کی پزیرائی نہیں کر سکتے۔ آپ فلسطینیوں کی بات کرتے ہو جو بنیادی طور پر یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ امن عمل سے امریکہ کو نکالیں گے، وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ اُن کا ہمارے ساتھ مزید کوئی تعلق نہیں رہا۔ وہ ہمیں اقوام متحدہ میں لے جاتے ہیں، اور وہاں وہ جو کچھ کرتے ہیں وہ بنیادی طور پر، یہ کہنے اور کرنے کے مترادف ہے جو دشمنی کے زمرے میں آتا ہے۔ ہم اپنی بے عزتی کے لیے پیسے نہیں دے سکتے‘‘۔
میانمار میں روہنگا مسلمانوں کی صورت حال سے متعلق ایک سوال پر، نِکی ہیلی نے کہا کہ ’’برما (جسے میانمار بھی کہا جاتا ہے) ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، بلکل ٹوٹ چکا ہے۔ اور ہم اس حقیقت کی جانب نہیں دیکھتے کہ چند برس قبل امریکہ اُس سے کس طرح نمٹ چکا ہے؛ اور سوچیں، کیا ہم اِسے برداشت کریں گے‘‘۔
آیا امریکہ میانمار کی فوج کے خلاف تعزیرات عائد کر سکتا ہے، ہیلی نے کہا کہ اُن کے خیال میں ’’ہمیں ہر چیز پر نظر رکھنی ہوگی‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’میں نہیں سمجھتی کہ ہمیں حکومت یا فوج کی جانب سے کیے جانے والے کام کو برداشت کرنا چاہیئے‘‘۔
بقول اُن کے، ’’ضرورت اِس بات کی ہے کہ جو کچھ اُنھوں نے کیا ہم اُس کا احتساب کریں۔ میں سمجھتی ہوں کہ ضرورت اِس بات کی ہے ہم مہاجرین کو محفوظ جگہ فراہم کریں، کیونکہ وطن واپسی ایسا معاملہ نہیں جسے آسانی سے حاصل کیا جا سکے، چونکہ واپسی کا سن کر وہ لوگ خوف زدہ ہوجاتے ہیں‘‘۔