دوحہ: امریکہ، طالبان امن مذاکرات کا نواں دور جاری

فائل

امریکہ اور طالبان اہلکاروں نے جمعرات کے روز قطر میں امن مذاکرات کے نویں دور کا آغاز کیا، جس میں افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کے بدلے طالبان کی جانب سے سیکورٹی ضمانت دینے کا معاملہ زیر غور آئے گا، تاکہ سمجھوتا طے کیا جا سکے۔ یہ بات طالبان اور اعلیٰ امریکی اہلکاروں نے بتائی ہے۔

اٹھارہ برس طویل لڑائی کے بعد طالبان رہنماؤں سے مہینوں سے جاری براہ راست بات چیت کے بعد بظاہر امریکہ سمجھوتے کے قریب پہنچ چکا ہے، جس کے نتیجے میں نبردآزما دونوں فریق کے درمیان جنگ بندی اور اس کے بعد غیر ملکی افواج کا انخلا ہو سکے گا۔

طالبان کے دو ترجمانوں نے بتایا ہے کہ جمعرات کی شام امریکہ اور طالبان نمائندوں کے درمیان بات چیت کا نواں دور شروع ہوا؛ جب کہ امن مذاکرات کے اِس دور میں شریک ایک اعلیٰ امریکی اہلکار نے بتایا کہ قطر کے دارالحکومت، دوحہ میں ’’باریک تفاصیل طے کرنے کے لیے فیصلہ کُن ملاقات کا آغاز ہوگیا ہے‘‘۔

اس وقت افغانستان میں تقریباً 20000 غیر ملکی فوجیں تعینات ہیں، جن میں زیادہ تر تعداد امریکی فوجوں کی ہے، جو امریکی قیادت والے نیٹو مشن کا حصہ ہیں۔ ان فوجوں کا مشن افغان افواج کو تربیت، اعانت اور مشاورت فراہم کرنا ہے۔

ان میں سے کچھ امریکی فوجیں انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں حصہ لیتی ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کے روز کہا ہے کہ افغانستان میں امریکی فوج کا اب بنیادی طور پر پولیس فورس کا ’’مضحکہ خیز‘‘ کردار رہ گیا ہے، یہ عندیہ دیتے ہوئے کہ لڑائی کے 18 برس بعد وہ امریکی فوج میں کمی لا سکتے ہیں۔

گذشتہ برس سے افغان نژاد امریکی سفارت کار، زلمے خلیل زاد طالبان کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کی قیادت کر رہے ہیں۔ طالبان اہلکاروں سے بات چیت کے بعد وہ کابل جائیں گے۔

’رائٹرز‘ نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک امریکی اہلکار کے حوالے سے خبر میں کہا ہے کہ ’’خلیل زاد امن سمجھوتے سے متعلق چوٹی کے افغان رہنماؤں کو مطلع کریں گے اور پھر افغانستان کی لڑائی ختم کرنے کے اعلان کو حتمی شکل دیں گے‘‘۔