امریکہ کے صدر براک اوباما نے تجربے کو ’’انتہائی اشتعال انگیز‘‘ قرار دیتے ہوئے ایک بیان میں کہا ہے کہ خطے کا استحکام کمزور ہوا ہے۔
شمالی کوریا کے ایٹمی تجربے پر دنیا بھر میں اسے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے اس اقدام کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ سلامتی کونسل کی طرف سے پیانگ یانگ پر ایٹمی اور میزائل تجربوں کی پابندی کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔
امریکہ کے صدر براک اوباما نے تجربے کو ’’انتہائی اشتعال انگیز‘‘ قرار دیا ہے۔ ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ خطے کا استحکام کمزور ہوا ہے اور اس سے شمالی کوریا کو محفوظ نہیں بنایا جا سکے گا۔ انھوں نے شمالی کوریا کے اس اقدام پر بین الاقوامی ردعمل کا مطالبہ بھی کیا۔
نیٹو کا کہنا ہے کہ دسمبر میں شمالی کوریا کا میزائل اور اب ایٹمی تجربہ ’’عالمی امن و سلامتی اور استحکام کے لیے شدید خطرہ‘‘ ہے۔
شمالی کوریا کے ایک اہم اتحادی ملک چین نے بھی اس اقدام کی مخالفت کی ہے۔ بیجنگ کی وزارت خارجہ نے پیانگ یانگ پر زور دیا ہے کہ وہ جوہری عدم پھیلاؤ کے وعدے پر عمل کرے۔
چین کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ طویل عرصے سے تعطل کے شکار چھ ملکی جوہری عدم پھیلاؤ پر مذاکرات کے فریم ورک کے ذریعے حل کیا جانا چاہیئے۔
یہاں تک کہ ایران، جس کے بارے میں امریکہ کا ماننا ہے کہ وہ جوہری ہتھیاروں کے اپنے پروگرام پر کام جاری رکھے ہوئے ہے، نے بھی شمالی کوریا کے اس تجربے کی مذمت کی ہے۔
وزارت خارجہ کے ایک ترجمان کا کہنا تھا کہ تمام ممالک کو ’’پرامن مقاصد‘‘ کے لیے جوہری سرگرمیاں کرنے کا حق ہے اور تہران امید کرتا ہے کہ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے تمام ہتھیاروں کو ختم کردیا جائے گا۔
جنوبی کوریا نے اس تجربے کو’’امن و استحکام کے لیے ناقابل قبول خطرہ‘‘ اور بین الاقوامی برادری کے لیے’’براہ راست چیلنج‘‘ قرار دیا ہے۔ سیول کا کہنا ہے کہ وزیر خارجہ کم سُنگ ہوان نے امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے ساتھ فون پر گفتگو میں منگل کو اس معاملے پر سلامتی کونسل کے ہونے والے اجلاس میں ’’جلد اور متحدہ عمل‘‘ پر اتفاق کیا ہے۔
جاپان کے وزیراعظم شینزو ابی کا کہنا ہے کہ یہ اقدام ’’انتہائی افسوسناک‘‘ اور ان کا ملک شمالی کوریا کے خلاف اپنی نئی پابندیوں پر غور کرے گا۔
یورپی یونین نے اسے جوہری عدم پھیلاؤ کے لیے ایک چیلنج قرار دیا ہے۔ خارجہ امور کی اعلیٰ عہدیدار کیتھرین ایشٹن نے ایک بیان میں کہا ہے کہ شمالی کوریا اس بارے میں مزید اقدامات کرنے سے روکا جانا چاہیے۔
علاوہ ازیں برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگ کا کہنا ہے کہ ان کا ملک شمالی کوریا کے ایٹمی تجربے پر ’’سخت ترین‘‘ بین الاقوامی ردعمل پر زور دے گا۔
فرانس کے صدر نے اس تجربے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے کیے جانے والے ردعمل کی بھرپور حمایت کا عزم ظاہر کیا ہے۔
روس نے بھی مذمت کرتے ہوئے اسے بین الاقوامی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
جرمنی کے وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ بین عالمی برادری کو اس اشتعال انگیزی کے خلاف ایک واضح موقف اپنانا چاہیے اور پیانگ یانگ کے خلاف مزید پابندیوں پر غور کرنا چاہیے۔
پاکستان نے شمالی کوریا کے زیر زمین ایٹمی تجربے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ تمام ممالک کو اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں کا پاس کرنا چاہیے۔
بھارت کی وزارت خارجہ نے بھی شمالی کوریا کے ایٹمی تجربے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے اس اقدام کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ سلامتی کونسل کی طرف سے پیانگ یانگ پر ایٹمی اور میزائل تجربوں کی پابندی کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔
امریکہ کے صدر براک اوباما نے تجربے کو ’’انتہائی اشتعال انگیز‘‘ قرار دیا ہے۔ ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ خطے کا استحکام کمزور ہوا ہے اور اس سے شمالی کوریا کو محفوظ نہیں بنایا جا سکے گا۔ انھوں نے شمالی کوریا کے اس اقدام پر بین الاقوامی ردعمل کا مطالبہ بھی کیا۔
نیٹو کا کہنا ہے کہ دسمبر میں شمالی کوریا کا میزائل اور اب ایٹمی تجربہ ’’عالمی امن و سلامتی اور استحکام کے لیے شدید خطرہ‘‘ ہے۔
شمالی کوریا کے ایک اہم اتحادی ملک چین نے بھی اس اقدام کی مخالفت کی ہے۔ بیجنگ کی وزارت خارجہ نے پیانگ یانگ پر زور دیا ہے کہ وہ جوہری عدم پھیلاؤ کے وعدے پر عمل کرے۔
چین کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ طویل عرصے سے تعطل کے شکار چھ ملکی جوہری عدم پھیلاؤ پر مذاکرات کے فریم ورک کے ذریعے حل کیا جانا چاہیئے۔
یہاں تک کہ ایران، جس کے بارے میں امریکہ کا ماننا ہے کہ وہ جوہری ہتھیاروں کے اپنے پروگرام پر کام جاری رکھے ہوئے ہے، نے بھی شمالی کوریا کے اس تجربے کی مذمت کی ہے۔
وزارت خارجہ کے ایک ترجمان کا کہنا تھا کہ تمام ممالک کو ’’پرامن مقاصد‘‘ کے لیے جوہری سرگرمیاں کرنے کا حق ہے اور تہران امید کرتا ہے کہ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے تمام ہتھیاروں کو ختم کردیا جائے گا۔
جنوبی کوریا نے اس تجربے کو’’امن و استحکام کے لیے ناقابل قبول خطرہ‘‘ اور بین الاقوامی برادری کے لیے’’براہ راست چیلنج‘‘ قرار دیا ہے۔ سیول کا کہنا ہے کہ وزیر خارجہ کم سُنگ ہوان نے امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے ساتھ فون پر گفتگو میں منگل کو اس معاملے پر سلامتی کونسل کے ہونے والے اجلاس میں ’’جلد اور متحدہ عمل‘‘ پر اتفاق کیا ہے۔
جاپان کے وزیراعظم شینزو ابی کا کہنا ہے کہ یہ اقدام ’’انتہائی افسوسناک‘‘ اور ان کا ملک شمالی کوریا کے خلاف اپنی نئی پابندیوں پر غور کرے گا۔
یورپی یونین نے اسے جوہری عدم پھیلاؤ کے لیے ایک چیلنج قرار دیا ہے۔ خارجہ امور کی اعلیٰ عہدیدار کیتھرین ایشٹن نے ایک بیان میں کہا ہے کہ شمالی کوریا اس بارے میں مزید اقدامات کرنے سے روکا جانا چاہیے۔
علاوہ ازیں برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگ کا کہنا ہے کہ ان کا ملک شمالی کوریا کے ایٹمی تجربے پر ’’سخت ترین‘‘ بین الاقوامی ردعمل پر زور دے گا۔
فرانس کے صدر نے اس تجربے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے کیے جانے والے ردعمل کی بھرپور حمایت کا عزم ظاہر کیا ہے۔
روس نے بھی مذمت کرتے ہوئے اسے بین الاقوامی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
جرمنی کے وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ بین عالمی برادری کو اس اشتعال انگیزی کے خلاف ایک واضح موقف اپنانا چاہیے اور پیانگ یانگ کے خلاف مزید پابندیوں پر غور کرنا چاہیے۔
پاکستان نے شمالی کوریا کے زیر زمین ایٹمی تجربے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ تمام ممالک کو اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں کا پاس کرنا چاہیے۔
بھارت کی وزارت خارجہ نے بھی شمالی کوریا کے ایٹمی تجربے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔