میانمار میں جمعہ تک جاری ہونے والے انتخابی نتائج کے مطابق حزب اختلاف کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (این ایل ڈی) نے پارلیمان سادہ اکثریت حاصل کر لی ہے۔
جمعے کی دوپہر تک این ایل ڈی نے 664 نشستوں پر مشتمل پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں 348 نشستیں حاصل کر لی تھیں جبکہ حکمران جماعت یونین سولیڈیریٹی اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی بری طرح ہار رہی ہے اور اب تک صرف 40 نشستیں حاصل کر سکی ہے۔ چھوٹی جماعتیں اور آزاد امیدوار اب تک مجموعی طور پر صرف 30 نشستیں حاصل کر سکے ہیں۔
میانمار کی فوج اور پارلیمان کی سب سے بڑی جماعتیں فروری میں صدر کے لیے اپنے امیدوار نامزد کریں گی۔ سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والا امیدوار صدر ہو گا جبکہ دوسرے اور تیسرے نمبر پر آنے والے امیدوار نائب صدر ہوں گے۔
فوج کی طرف سے تیار کردہ آئین کے مطابق آنگ سان سو چی پر صدر بننے کی ممانعت ہے کیونکہ ان کے بیٹے برطانوی شہریت رکھتے ہیں۔ ان کے مرحوم شوہر بھی برطانوی شہری تھے۔
این ایل ڈی کی رہنما نے اس سے قبل کہا تھا کہ اگر ان کی پارٹی کامیاب ہوئی تو نئے صدر کی رہنمائی وہ کریں گی۔
جمعرات کو وائٹ ہاؤس نے صدر تھائن شین اور این ایل ڈی دونوں کو ’’تاریخی انتخابات‘‘ پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ ملک کو مزید کئی جمہوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، جن میں آئین میں تبدیلی شامل ہے تاکہ آنگ سان سو چی ممکنہ طور پر صدر منتخب ہو سکیں۔
وائٹ ہاؤس کے خارجہ امور کے مشیر بین روڈز نے کہا کہ ’’اس الیکشن کے باوجود پارلیمان کی 25 فیصد نشستیں فوج کے لیے مختص ہیں۔ ہم گزشتہ کئی سال کے دوران یہ کہتے رہے ہیں کہ برما میں سویلین حکومت کو اقتدار کی مکمل منتقلی کے لیے آئینی اصلاحات کی ضرورت ہے۔‘‘
آنگ سان سو چی نے جمعرات کو ریڈیو فری ایشیا کی میانمار سروس سے ایک انٹرویو میں تنبیہہ کی کہ انتخابی عمل ابھی مکمل نہیں ہوا اور اپنے حامیوں سے ’’خود پر قابو رکھنے‘‘ اور آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں کسی بھی اشتعال انگیزی کا جواب دینے سے گریز کرنے کی اپیل کی۔
ان کا کہنا تھا کہ نئی حکومت بنانے کے بعد این ایل ڈی اصلاحات کے لیے ’’واضح اور درست‘‘ اہداف مقرر کرے گی۔
’’میں دیکھ سکتی ہوں کہ جس منزل تک لوگ پہنچنا چاہتے ہیں وہ ابھی بہت دور ہے اور الیکشن اس کی جانب پہلا قدم ہے۔‘‘
اتوار کو ہونے والے انتخابات میں تین کروڑ سے زائد شہریوں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔
بین الاقوامی مبصرین نے الیکشن کو کامیاب قرار دیا مگر مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کی حق رائے دہی سے محرومی اور پیشگی ڈالے گئے ووٹوں کی گنتی شفاف نہ ہونے پر نشویش کا اظہار کیا ہے۔
میانمار میں 2011 میں طویل فوجی حکومت کے خاتمے کے بعد اس سال پہلی مرتبہ انتخابات منعقد کرائے گئے۔