|
اسرائیل اور حزب اللہ کی جانب سے اتوار کو ایک دوسرے پر کیے گئے حملوں کے باوجود قاہرہ میں رواں ہفتے غزہ جنگ بندی مذاکرات جاری رہنے کا امکان ہے۔
مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالوں کی بازیابی کے لیے جاری مذاکرات کا ایک سلسلہ اتوار کو بغیر کسی نتیجے کے ختم ہو گیا ہے۔
مصر کے دو سیکیورٹی عہدے داروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کو بتایا کہ مذاکراتی عمل میں ثالثوں کی جانب سے پیش کی گئی متعدد تجاویز پر اسرائیل اور حماس دونوں کی جانب سے عدم اتفاق سامنے آیا۔
’رائٹرز‘ کے مطابق امریکہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے شرط پر بتایا کہ مذاکراتی عمل تعمیری رہا ہے۔ ایک حتمی اور قابلِ عمل معاہدے کے لیے کوشاں ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ مذاکراتی عمل آنے والے دنوں میں بھی جاری رہے گا۔ اس عمل میں ورکنگ گروپ شریک ہوں گے جو باقی مسائل اور ان کی تفصیلات کا حل نکالیں گے۔
غزہ میں جاری لڑائی کے خاتمے اور حماس کی قید میں موجود یرغمالوں کی رہائی کے لیے کئی ماہ سے مذاکراتی عمل جاری ہے۔ لیکن یہ مذاکراتی عمل کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ سکا ہے۔
امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے کینیڈا میں پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ امریکہ غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالوں کی بازیابی کے لیے کام کر رہا تھا۔
امریکہ، قطر اور مصر کی ثالثی میں جاری مذاکراتی عمل میں 'فلاڈیلفی کوریڈور' میں اسرائیلی فورسز کی مستقل موجودگی ایک اہم نکتہ تھا۔ فلاڈیلفی کوریڈور غزہ کے جنوب میں مصر کی سرحد کے ساتھ ایک ساڑھے 14 کلو میٹر زمینی پٹی ہے۔
’رائٹرز‘ نے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ ثالثوں نے فلاڈیلفی کوریڈور اور غزہ کو بالکل درمیان سے تقسیم کرنے والے نیٹزارم کوریڈور میں اسرائیلی فورسز کی موجودگی کے حوالے سے کئی متبادل تجاویز پیش کیں۔ لیکن فریقین نے ان تجاویز کو قبول نہیں کیا۔
اسی طرح فریقین میں غزہ سے اسرائیلی فوج کے انخلا اور زیرِ حراست افراد کی رہائی کے حوالے سے بھی عدم اتفاق موجود تھا۔
امریکی حکام کے بقول فریقین میں موجود خلا کو کم کرنے کے لیے گزشتہ تین سے چار روز سے امریکہ، مصر اور اسرائیلی مذاکرات کاروں میں کافی بات چیت بھی ہوئی۔
SEE ALSO: غزہ جنگ بندی: حماس کے وفد کا قاہرہ جانے لیکن مذاکراتی عمل میں شامل نہ ہونے کا اعلاناتوار کو اسرائیل کے اعلیٰ مذاکرات کار بھی بات چیت کے عمل میں شامل ہوئے۔ تاہم امریکی حکام نے واضح نہیں کیا کہ ان کے شامل ہونے سے کوئی پیش رفت ہوئی یا نہیں۔
حماس نے کہا ہے کہ اسرائیل غزہ سے فوج کے انخلا کی یقین دہانی سے پیچھے ہٹ گیا ہے اور اس نے اب نئی شرائط رکھ دی ہیں جن میں جنگ بندی کے بعد غزہ کے گنجان ترین شمالی علاقے میں بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کی اسکریننگ کرنا شامل ہے۔
حماس کے رہنما اسامہ حمدان نے الاقصیٰ ٹی وی سے اتوار کو گفتگو میں بتایا کہ حماس نے دو جولائی کو پیش کی گئی تجاویز کو قبول کیا تھا۔ اب ان تجاویز سے دستبرداری پر بات چیت قبول نہیں ہے۔
رائٹرز نے حماس کے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ حماس نے جولائی میں امریکہ کی پیش کی گئی ان تجاویز کو قبول کیا تھا جس میں جنگ بندی کے لیے مذاکرات میں شامل ہونا اور اسرائیل پر سات اکتوبر 2023 کو کیے گئے حملے میں یرغمال بنائے گئے مردوں اور فوجی اہلکاروں سے سمیت دیگر افراد کی مرحلہ وار رہائی شامل تھی۔
SEE ALSO: غزہ میں فوج برقراررکھنے کے اسرائیلی مطالبے جنگ بندی معاہدے میں رکاوٹ ہیں: رائٹرز خصوصی رپورٹثالثوں سے ملاقات کے بعد حماس کا وفد اتوار کو ہی مصر سے روانہ ہو گیا تھا۔ حماس کے سینئر رہنما عزت الرشق نے بتایا کہ حماس کے وفد نے غزہ میں مستقل جنگ بندی اور اسرائیلی فورسز کے مکمل انخلا کے مطالبے پر زور دیا ہے۔
غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالوں کی بازیابی کے مذاکرات میں تعطل سے متعلق یہ رپورٹس ایسے موقع پر سامنے آئی ہیں جب ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب اسرائیلی فورسز اور لبنان کی عسکری تنظیم حزب اللہ نے ایک دوسرے پر حملے کیے ہیں۔
رپورٹس کے مطابق اسرائیل کے 100 کے قریب جنگی جہازوں نے لبنان میں حزب اللہ ٹھکانوں پر حملے کیے جب کہ حزب اللہ نے 300 سے زائد ڈرون اور راکٹ اسرائیل میں فوجی تنصیبات پر داغنے کا دعویٰ کیا۔
واضح رہے کہ خطے میں کشیدگی ایسے موقع پر بڑھ رہی ہے جب غزہ میں جاری جنگ کو 10 ماہ سے زائد ہو چکے ہیں۔
SEE ALSO: اسرائیلی فوج اپنی توجہ لبنان پر مرکوز کر رہی ہے: وزیر دفاعاسرائیل اور حماس کا حالیہ تنازع سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر دہشت گرد حملے کے بعد شروع ہوا تھا جس میں 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اسرائیل کی جوابی کارروائیوں میں حماس کے زیرِ انتظام غزہ کے محکمۂ صحت کے مطابق اب 40 ہزار سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔
اس رپورٹ میں خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے معلومات شامل کی گئی ہیں۔