اُنھوں نے کہا کہ امریکہ عراق میں اپنی فوج کی موجودگی کے بارے میں غور نہیں کر رہا
واشنگٹن —
امریکہ کے اعلیٰ سفارت کار کا کہنا ہے کہ امریکہ القاعدہ کے تشدد پسندوں کے خلاف لڑائی میں عراق کا حامی ہے، جنھوں نے صوبہٴ انبار کے ایک قصبے پر قبضہ کر لیا ہے۔
تاہم، جان کیری نے اتوار کے دِن بتایا کہ امریکہ اپنے فوجی عراق نہیں بھیجے گا، بقول اُن کے،’یہ اُن کی جنگ‘ ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ امریکہ عراق میں اپنی فوج کی موجودگی کے بارے میں غور نہیں کر رہا۔
کیری نے یہ بیان یروشلم سے اردن اور سعودی عرب روانہ ہونے سے قبل دیا، جہاں وہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین امن سمجھوتا طے کرنے سے متعلق کوششوں کے سلسلے میں بات چیت کریں گے۔
وہ پچھلے چند روز سے اس علاقے کا دورہ کر رہے ہیں، اور فلسطینی صدر محمود عباس اور اسرائیلی وزیر اعظم بینجامن نیتن یاہو سے بات چیت کر چکے ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ اُنھیں مشرق وسطیٰ امن عمل کے سلسلے میں پیش رفت حاصل ہو رہی ہے، لیکن ابھی مزید کام کی ضرورت ہے۔ اُنھوں نے اس توقع کا اظہار کیا کہ اسرائیلی اور فلسطینی رہنما بہت جلد امن معاہدے کے ایک خاکے سے اتفاق کرلیں گے۔
جان کیری نے کہا کہ سمجھوتے کے اس ڈھانچے پر رضامندی، بقول اُن کے، ایک ’اہم پیش رفت‘ ہوگی، حالانکہ یہ بات اُن کی اصل خواہش کے مطابق نہیں ہوپائی، کیونکہ اُن کا ابتدائی ہدف اپریل تک ایک جامع امن سمجھوتا طے کرنا تھا۔
اسرائیلی وزیر اعظم سے مزید بات چیت کے لیے، کیری دوبارہ یروشلم جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
دس مارچ سے اُن کا یہ دورہ جاری ہے، ایسے میں جب اسرائیلی اور فلسطینی اپنے عشروں پرانے تنازع کے ’دو ریاستی حل‘ کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کا ذمہ دار ایک دوسرے کو قرار دیتے ہیں۔
جب کیری نے اسرائیلی وزیر اعظم سے ملاقات کی تو مسٹر نیتن یاہو نے یہ سوال اُٹھایا آیا فلسطینی ’امن کے لیے پُرعزم ہیں‘، اور الزام لگایا کہ وہ اسرائیل کو ایک یہودی ریاست تسلیم کرنے میں ناکام رہے ہیں، جب کہ، بقول اُن کے، ’وہ دہشت گردوں کو اپنا ہیرو ماننے پر تیار ہیں۔‘
وزیر اعظم کا اشارہ اس ہفتے مغربی کنارے پہنچنے پر فلسطینی قیدیوں کے گرم جوش خیرمقدم کی طرف تھا، جنھیں امن عمل کے حصے کے طور پر اسرائیلی قیدخانوں سے رہائی دی گئی تھی۔
مسٹر عباس نے مغربی کنارے میں اسرائیلی بستیوں کی تعمیر کے جاری کام کا شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل اُس زمین پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جو مستقبل کی فلسطینی ریاست کا حصہ ہوگی۔ امریکہ نے بھی اسرائیل کی طرف سے بستیوں کی تعمیر کو ’ناجائز اور غیر مفید‘ قرار دیا ہے۔
ادھر، وادیِ اردن میں حفاظت کے بندوبست سے متعلق امریکی تجاویز پر بھی نااتفاقی کا سامنا ہے، جہاں مغربی کنارے کی سرحدیں اردن کے ساتھ ملتی ہیں۔
اسرائیل اس بات کا خواہاں ہے کہ وہ اس علاقے میں اپنے فوجی تعینات کیے رکھے۔ اُس کا کہنا ہے کہ سلامتی کی وجوہ کی بنا پر یہ انتہائی اہمیت کا حامل معاملہ ہے۔ فلسطینی کہتے ہیں کہ یہ بات اُن کی آئندہ کی ریاست کے حقِ حاکمیت کی خلاف ورزی کا باعث بنے گی۔
تاہم، جان کیری نے اتوار کے دِن بتایا کہ امریکہ اپنے فوجی عراق نہیں بھیجے گا، بقول اُن کے،’یہ اُن کی جنگ‘ ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ امریکہ عراق میں اپنی فوج کی موجودگی کے بارے میں غور نہیں کر رہا۔
کیری نے یہ بیان یروشلم سے اردن اور سعودی عرب روانہ ہونے سے قبل دیا، جہاں وہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین امن سمجھوتا طے کرنے سے متعلق کوششوں کے سلسلے میں بات چیت کریں گے۔
وہ پچھلے چند روز سے اس علاقے کا دورہ کر رہے ہیں، اور فلسطینی صدر محمود عباس اور اسرائیلی وزیر اعظم بینجامن نیتن یاہو سے بات چیت کر چکے ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ اُنھیں مشرق وسطیٰ امن عمل کے سلسلے میں پیش رفت حاصل ہو رہی ہے، لیکن ابھی مزید کام کی ضرورت ہے۔ اُنھوں نے اس توقع کا اظہار کیا کہ اسرائیلی اور فلسطینی رہنما بہت جلد امن معاہدے کے ایک خاکے سے اتفاق کرلیں گے۔
جان کیری نے کہا کہ سمجھوتے کے اس ڈھانچے پر رضامندی، بقول اُن کے، ایک ’اہم پیش رفت‘ ہوگی، حالانکہ یہ بات اُن کی اصل خواہش کے مطابق نہیں ہوپائی، کیونکہ اُن کا ابتدائی ہدف اپریل تک ایک جامع امن سمجھوتا طے کرنا تھا۔
اسرائیلی وزیر اعظم سے مزید بات چیت کے لیے، کیری دوبارہ یروشلم جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
دس مارچ سے اُن کا یہ دورہ جاری ہے، ایسے میں جب اسرائیلی اور فلسطینی اپنے عشروں پرانے تنازع کے ’دو ریاستی حل‘ کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کا ذمہ دار ایک دوسرے کو قرار دیتے ہیں۔
جب کیری نے اسرائیلی وزیر اعظم سے ملاقات کی تو مسٹر نیتن یاہو نے یہ سوال اُٹھایا آیا فلسطینی ’امن کے لیے پُرعزم ہیں‘، اور الزام لگایا کہ وہ اسرائیل کو ایک یہودی ریاست تسلیم کرنے میں ناکام رہے ہیں، جب کہ، بقول اُن کے، ’وہ دہشت گردوں کو اپنا ہیرو ماننے پر تیار ہیں۔‘
وزیر اعظم کا اشارہ اس ہفتے مغربی کنارے پہنچنے پر فلسطینی قیدیوں کے گرم جوش خیرمقدم کی طرف تھا، جنھیں امن عمل کے حصے کے طور پر اسرائیلی قیدخانوں سے رہائی دی گئی تھی۔
مسٹر عباس نے مغربی کنارے میں اسرائیلی بستیوں کی تعمیر کے جاری کام کا شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل اُس زمین پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جو مستقبل کی فلسطینی ریاست کا حصہ ہوگی۔ امریکہ نے بھی اسرائیل کی طرف سے بستیوں کی تعمیر کو ’ناجائز اور غیر مفید‘ قرار دیا ہے۔
ادھر، وادیِ اردن میں حفاظت کے بندوبست سے متعلق امریکی تجاویز پر بھی نااتفاقی کا سامنا ہے، جہاں مغربی کنارے کی سرحدیں اردن کے ساتھ ملتی ہیں۔
اسرائیل اس بات کا خواہاں ہے کہ وہ اس علاقے میں اپنے فوجی تعینات کیے رکھے۔ اُس کا کہنا ہے کہ سلامتی کی وجوہ کی بنا پر یہ انتہائی اہمیت کا حامل معاملہ ہے۔ فلسطینی کہتے ہیں کہ یہ بات اُن کی آئندہ کی ریاست کے حقِ حاکمیت کی خلاف ورزی کا باعث بنے گی۔