پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے بھارت سے مزید مذاکرات کے امکان کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت سے مذاکرات کا اب کوئی فائدہ نہیں ہے۔
بدھ کو امریکی اخبار 'نیو یارک ٹائمز' کو دیے گئے ایک انٹرویو میں عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت ایٹمی طاقت ہیں اور اس وقت دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ خطے کا ماحول کشیدہ ہے اور ایسے میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اس صورتِ حال میں پیدا ہونے والے خدشات سے امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی آگاہ کر دیا ہے۔
عمران خان کے بقول، خطے کی صورتِ حال سے سب کو باخبر رہنا چاہیے۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ بھارت کی حکومت نے 80 لاکھ کشمیریوں کی جانوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
عمران خان نے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں نسل کشی کا خدشہ بھی ظاہر کیا اور اقوامِ متحدہ سے وادی میں امن فوج اور مبصرین بھیجنے کا مطالبہ کیا۔
یاد رہے کہ بھارت نے پانچ اگست کو بھارتی یونین میں جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی حیثیت سے متعلق آئین کی دفعہ 370 اور 35-اے ختم کر دی تھیں، جس کے بعد سے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی بڑھ گئی ہے۔
بھارت اپنے حالیہ اقدامات کو اپنا داخلی معاملہ قرار دیتا ہے اور اس کا موقف ہے کہ دفعہ 370 کی منسوخی کا مقصد کشمیر اور کشمیریوں کو قومی دھارے میں لانا اور اس کی تعمیر و ترقی کے عمل کو تیز کرنا ہے۔
بھارت کا مؤقف ہے کہ مسئلہ کشمیر پر مذاکرات اس وقت ہی ممکن ہیں جب پاکستان اپنی سر زمین دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے سے روکے جب کہ پاکستان بھارت کے اس الزام کی تردید کرتا رہا ہے کہ اس کی زمین کسی دہشت گردی کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔
بھارت کے یوم آزادی کے موقع پر برطانیہ میں بھارت مخالف احتجاج پر نریندر مودی نے برطانوی ہم منصب بورس جونس کو بدھ کو ٹیلی فون کیا۔ دونوں رہنماؤں نے کشمیر کی حالیہ صورتِ حال پر گفتگو کی۔
اس موقع پر برطانوی وزیرِ اعظم نے کشمیر کو پاکستان اور بھارت کے درمیان باہمی مسئلہ قرار دیتے ہوئے اسے مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا تھا۔
یاد رہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کم کرنے کے لیے امریکی صدر ٹرمپ دونوں ممالک کے وزراء اعظم سے بات کر چکے ہیں، جبکہ انہوں نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ پیرس میں ہونے والے جی سیون سمِٹ میں وہ نریندر مودی سے کشمیر کے معاملے پر بات کریں گے۔
صدر ٹرمپ کشمیر کے معاملے پر ایک سے زائد بار ثالثی کی پیش کش بھی کر چکے ہیں۔
پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر فیصل نے جمعرات کے روز معمول کی بریفنگ میں کہا ہے کہ صدر ٹرمپ کے متواتر رابطے ظاہر کرتے ہیں کہ وہ جموں و کشمیر کے تنازعے کو حل کرنے میں سنجیدہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان کی صدر ٹرمپ سے ٹیلی فون پر گفتگو کا مقصد امریکی قیادت کو بھارت کی جانب سے کشمیر کی حیثیت کے بارے یک طرفہ اور غیر قانونی اقدامات کے بعد پیدا شدہ صورت حال سے آگاہ کرنا تھا۔
تجزیہ کار وجاہت مسعود کہتے ہیں کہ کوئی تیسری طاقت پاکستان اور بھارت کو بات چیت پر آمادہ تو کر سکتی ہے۔ تاہم، تصفیہ طلب معاملات کا حل پاکستان اور بھارت کو ہی نکالنا ہے۔
اپنے انٹرویو میں وزیر اعظم کا مزید کہنا تھا کہ نئی دلی حکومت جرمنی کے نازیوں جیسی ہے جس کے باعث 80 لاکھ کشمیریوں کی جانیں خطرے میں ہیں۔
عمران خان نے کہا کہ مودی ایک فاشسٹ اور ہندو بالادستی پر یقین رکھنے والے حکمران ہیں جو کشمیر میں مسلم اکثریت کا صفایا کر کےخطے میں ہندو آبادی کو بسانا چاہتے ہیں۔
دریں اثنا سوشل میڈیا پر اپنے ایک پیغام میں عمران خان نے کہا ہے کہ ہم دنیا کی توجہ ظلم و بربریت کے شکار لاکھوں کشمیریوں کی طرف دلانا چاہتے ہیں۔
جمعرات کو ٹوئٹر پر اپنے ایک بیان میں عمران خان نے کہا کہ کشمیریوں کو ان کے بنیادی حقوق اور آزادی سے محروم رکھا جا رہا ہے، یہاں تک کہ عید جیسے تہوار پر انہیں عبادات بھی نہیں کرنے دی گئیں۔
انہوں نے عالمی برادری سے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں متوقع نسل کشی رکوانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔