پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کہا کہ ملک میں مدارس کے خلاف آپریشن نہیں ہو رہا ہے تاہم اُن مدرسوں پر نظر رکھی جا رہی ہیں جن کا دہشت گردی سے کسی طرح کا ربط ہے۔
سرکاری ٹیلی ویژن سے انٹرویو میں چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ ملک کے مدارس میں صرف ایک چھوٹا سا حصہ ایسا ہے، جس کی نگرانی کی جا رہی ہے۔
اُن کے بقول یہ کہنا بالکل غلط ہو گا کہ تمام مدارس کا شدت پسندوں سے تعلق ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ کا یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا جب ملک میں انسداد دہشت گردی کے قومی لائحہ عمل کے تحت دہشت گردوں کے خلاف کارروائی جاری ہے اور اب تک حراست میں لیے جانے والے مشتبہ افراد میں وہ بھی شامل ہیں جو فرقہ واریت پر مبنی نفرت انگیز تقاریر میں ملوث تھے۔
عراق اور شام میں سرگرم شدت پسند گروپ ’داعش‘ کی پاکستان میں موجودگی سے متعلق قیاس آرائیوں کو چوہدری نثار نے ایک مرتبہ پھر رد کیا ہے۔
چوہدری نثار نے کہا کہ پاکستان کے بعض شدت پسند ایسے ہیں جنہیں اُن کی تنظیموں سے نکال دیا گیا اور اُنھوں نے شہرت کے حصول کے لیے داعش میں شمولیت کا اعلان کیا لیکن اس وقت پاکستان میں اس شدت پسند گروپ کا کوئی وجود نہیں ہے۔
افغانستان کے بارے میں پاکستانی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کے تعلقات انتہائی خوشگوار ہیں جس کی اُن کے بقول ماضی میں مثال نہیں ملتی۔
چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ ملا فضل اللہ کے خلاف کارروائی کے حوالے سے افغانستان کی حکومت اپنی اہلیت کے مطابق پاکستان سے مکمل تعاون کر رہی ہے۔
واضح رہے کہ پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر حملے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی تھی۔
پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ اس تنظیم کا سربراہ ملا فضل اللہ افغانستان میں روپوش ہے اور اُس کے خلاف کارروائی میں تعاون کے حصول کے لیے پاکستان کی اعلیٰ عسکری قیادت نے افغانستان کے دورے بھی کیے۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف ’بلاتفریق‘ کارروائی کی جا رہی ہے اور وفاقی وزیر داخلہ کے بقول شدت پسندوں کے خلاف کارروائیوں کے باعث ملک میں دہشت گردوں کے حملوں میں نمایاں کمی آئی ہے۔