آج نور کو انصاف مل گیا!
یہ الفاظ تھے نور مقدم کے والد شوکت مقدم کے نور مقدم قتل کیس کا فیصلہ آنے پر۔قتل کا الزام ثابت ہونے پر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کی جانب سے ملزم ظاہر جعفر کو سزائے موت سنائی گئی۔
یہ بیان دیتے وقت شوکت مقدم کا کوٹ ان کے کاندھوں سے کچھ ڈھلکا ہوا تھا. ان کا گھٹا ہوا وزن انصاف کے حصول کے لیے سات ماہ تک روز وکیلوں اور عدالتوں کے چکر کاٹتے باپ کی داستان سنا رہا تھا۔
مگر اس تلخ حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کوئی عدالتی فیصلہ کوئی سزا ان کی زندگی کا نور، ان کی بیٹی نور واپس نہیں لا سکتا۔
نور کے قاتل کو سزا ہونے پر صرف شوکت مقدم ہی نہیں سات ماہ تک مسلسل متحرک رہنے والی سول سوسائٹی بھی مطمئن نظر آتی ہے۔
سماعتوں کے دوران نور کے کردار کو مسخ کرنے کی، اس مقدمے کو توڑ نے مروڑنے کی بھرپور کوششیں کی گئیں لیکن عدالت نے تواتر سے کاروائی کرتے ہوئے اس قتل کیس کا فیصلہ سنا دیا۔ اس دورانیے میں پراسیکیوشن فعال نظر آئی تو پولیس مستعد۔ انصاف کے تقاضے پورے کیے گیے اور اس طرح نور مقدم قتل کیس کو منتقی انجام تک پہنچا کر ریاست ،جس کے مختلف دھڑے مستقل عوام کی تنقیدی نظروں میں تھے ، بالآخر سرخرو ہوگئی۔
لیکن کیا واقعی ایک نور مقدم کے قاتل کو سزا ہوجانے سے سب ٹھیک ہوگیا ہے؟ انصاف ضرورت مند کے دروازے تک پہنچ گیا ہے؟
تبصرہ نگاروں کے مطابق اس کیس کا نتیجہ جلد آنے کی بعض واضح وجوہات ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نور کا قتل پاکستان کے دارالحکومت کے دل میں ہوا۔ ظاہر جعفر طاقتور والدین کا بیٹا تھا تو نور کے والد بھی دنیا کے مختلف ممالک میں بطور سفیر پاکستان خدمات انجام دینے پر سماج میں معتبر حیثیت رکھتے ہیں جو اس کیس کو خبروں میں رکھنے کی اہم وجہ بنا
یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اس کیس کے دوران پولیس اور استغاثہ کی چستی اور جلد عدالتی فیصلے کا سہرا در اصل ان اداروں پر مستقل پریشر برقرار رکھنے والی سول سوسائٹی کے سر جاتا ہے۔
کوئی ایسی سنوائی نہیں تھی جب میڈیا کے کیمرے عدالت کے باہر موجود نہ ہوں۔ کوئی ایسا روز نہیں گزرا جب JusticeForNoor# کا ہیش ٹیگ سوشل میڈیا پر نظر نہ آیا ہو۔
مگر نور سے پانچ روز بعد اسلام آباد کے علاقے چونترہ میں غریب نسیم کا ریپ اور قتل کیا گیا۔ اسے مارنے سے پہلے اس کی آنکھوں کے سامنے قاتل نے اس کے شیر خوار بچے کو چاقوؤں کے وار سے قتل کیا۔ نسیم بی بی کے قاتل کے گرفتار ہونے کی خبر تو ملی تھی مگر پھر اس کیس کا کیا بنا کسی کو نہیں پتہ۔نور سے پانچ روز پہلے ہی سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد میں چار بچوں کی ماں قرۃالعین بلوچ کو اس کے شوہر نے مار مار کر بے دردی سے قتل کر دیا۔ خبروں کے مطابق قرةالعین کا شوہر کے لیے بات بات پر اپنی بیوی پر تشدد کرنا عام بات تھی جبکہ قرۃالعین نےعید سے ایک ہفتہ قبل بچوں کو نئے جوتے دلانے کی فرمائش کر دی تھی۔
قرۃالعین کا خاندان آئے روز سوشل میڈیا پر اس کیس کی جانب عوام کی توجہ مبذول کرانے کے لیے
JusticeForQuratulAin# کا ہیش ٹیگ ٹرینڈ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ قرۃالعین کے بھائی عزیز اللہ بلوچ کے مطابق ان کی بہن کا قاتل مضبوط خاندان سے تعلق رکھتا ہے جس کی وجہ سے پولیس نے ان کی داد رسی کرنے کے بجائے انہیں اب تک پریشان ہی کیا ہے۔ انویسٹیگیشن آفیسر مقتولہ کی بیٹی کے بیان میں شامل اہم باتیں ریکارڈ پر ہی نہیں لایا اور اس طرح واقعے کو لڑائی جھگڑے کے دوران ہونے والا حادثہ قرار دیا گیا۔
عزیز اللہ بلوچ کے مطابق سات ماہ گزر چکے ہیں اور آج تک ملزم پر فرد جرم ہی عائد نہیں ہو پائی ہے۔ کیس کو بار بار مختلف حیلے بہانوں سے آگے بڑھا دیا جاتا ہے۔ خبرون سے ظاہر ہوتا ہے کہ قرۃالعین بلوچ کے خاندان کے جیسے کئی خاندان ہیں جن کو ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے۔
قرۃالعین بلوچ کے بھائی جو اپنے سوشل میڈیا پر بہن کے ساتھ ساتھ نور مقدم کے لیے بھی آواز اٹھاتے رہے ہیں نور کے قاتل کو سزا سنائے جانے پر خوش ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کی بہن اور اس کے چار بچوں کو بھی انصاف ملے اور انہیں اپنے اس حق کے لیے در بدر نہ پھرنا پڑے۔
ایسا کیوں ہے کہ کوئی کیس عوام کی توجہ پا جاتا ہے مگر دوسرے کو وہ اہمیت نہیں مل پاتی؟ کیا سول سوسائٹی بھی قانون اور نظام انصاف کی طرح امتیازبرتتی ہے؟
کینیڈا کی سائمن فریزر یونیورسٹی سے جینڈر اینڈ وومنز اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی رکھنے والی استاد، تحقیق کار اور سماجی کارکن سیدہ نایاب بخاری اس بات سے کسی حد تک متفق ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نور کیس کواس لیے زیادہ توجہ ملی کہ نور سے پاکستان کے سوشل میڈیا پر فعال بہت سی کالج سےتعلیم یافتہ جوان لڑکیاں تعلق محسوس کر سکتی ہیں مگر پھر دوسری ہی سانس میں وہ کہتی ہیں کہ یہی سول سوسائٹی مختاراں مائی کے لیے بھی تو کھڑی ہوئی تھی جن کا تعلق معاشرے کے کمزور طبقے سے تھا۔
نایاب بخاری کہتی ہیں کہ یہ افسوسناک ہے کہ ریاست نے (جس میں اس کے تمام ادارے شامل ہیں) انصاف دلانے کی ذمہ داری بھی سول سوسائٹی پر ڈال دی ہے۔ جس معاملے پر شور ہوتا ہے اس پر مستعدی دکھائی جاتی ہے اور انصاف کے حصول کا راستہ نسبتاً آسان ہوجاتا ہے۔
خواتین کے حقوق کی کارکن ڈاکٹر فرزانہ باری کے مطابق پاکستان کا نظام انصاف گل سڑچکا ہے اور اس میں تبدیلیاں نا گزیر ہیں۔ ان کے بقول عوام کا نہ اب قانون نافذ کرنے والوں پر اعتبار رہا ہے نہ انصاف دینے والوں پر۔ ان کا کہنا ہے کہ لوگ کہتے ہیں کہ بار بار پولیس کو پیسہ کھلانے سے بہتر ہے کہ ایک بار جج کو ہی خرید لیا جائے۔
سوال یہ ہے کہ نظام قانون اور انصاف میں خامیاں بھی ہیں اور کرپشن بھی۔ ساتھ ہی ان اداروں پر استطاعت سے زیادہ بوجھ بھی ہے۔ تو پھر ایسا کیا کیا جائے کہ مظلوم کو انصاف پانے کے لیے سال اور دہائیاں نہ لگیں۔
ڈاکٹر نایاب بخاری اس بارے میں کہتی ہیں کہ خرابی جب نظام میں ہے تو نظام ہی کو درست کیا جانا چاہیے۔ ان کے مطابق نور مقدم کیس میں ریاست کا فعال کردار ایسا ہی ہے جیسے بس زخم پر پٹی لگادی گئی ہو۔ انصاف کا حصول ہر شہری کا بنیادی حق ہے اور ایک کیس کا نتیجہ ظاہر ہو جانے سے انصاف دینے میں ریاست کی ناکامی پر پردہ نہیں ڈالا جا سکتا۔
نایاب بخاری کے مطابق یہ واضح ہے کہ ملک کی عدالتوں میں مزید ججز کی ضرورت ہے اور ان ججزکی تعیناتی میں صنفی توازن بھی نظر آنا چاہیے۔
ان کا کہنا ہے کہ ریاست کو خواتین اور صنفی اقلیتوں پر تشدد کے معاملے میں مکمل عدم برداشت کا رویہ اپنانا ہوگا اور اس کے لیے ضروری ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی صنفی حساسیت کے موضوع پر ٹریننگ کی جائے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے اسکول اور کالجز میں سوکس جیسے نصاب میں انسانی حقوق بالخصوص خواتین اور اقلیتوں کے حقوق اس خوبصورتی کے ساتھ سموئے جائیں کہ اگلی نسلیں ظلم اور نا انصافی کو اپنا شعار نہ بنائیں۔
خواتین کی ہراسانی اور تشدد کا خاتمہ، ان جرائم پر انصاف کا حصول پاکستان کے تناظر میں ابھی کسی یوٹوپیا سے کم نظر نہیں آتا ،لیکن اگر ریاست سنجیدگی دکھائے تو نور اور قرۃالعین جیسی بہت سی خواتین کی جانیں بچائی جا سکتی ہیں اورعزیز اللہ بلوچ جیسے بہت سے بھائیوں کو توجہ حاصل کرنے کے لیے انسانیت کا ضمیر جھنجھوڑنے کی زحمت سے بھی بچایا جا سکتا ہے۔