اسٹیٹ —
امریکہ کے وزیرِ خارجہ جان کیری اور اقوامِ متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون نے کہا ہے کہ شمالی کوریا کو اس کے حالیہ نیوکلیئر ٹیسٹ کی سزا ضرور ملنی چاہیئے۔
پیانگ یانگ میں لوگوں کے ہجوم اس کامیاب نیوکلیئر ٹیسٹ کا جشن منا رہے ہیں جسے شمالی کوریا کے لیڈروں نے اپنے دفاع کی جائز کارروائی قرار دیا ہے۔
اُدھر اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے کہا ہے کہ یہ ٹیسٹ بین الاقوامی برادری کے لیے براہِ راست چیلنج ہے۔
‘‘میں نے پیانگ یانگ کی قیادت سے بار ہا کہا ہے کہ وہ اپنے نیوکلیئر اسلحہ کے حصول کے پروگرام ترک کر دے اور اس کے بجائے اپنے ملک کے لوگوں کے بہتر مستقبل کی تعمیر پر توجہ دے اور ان کی انسانی ضروریات اور انسانی حقوق کی تشویش ناک حالت کو بہتر بنائے۔’’
مسٹر بان سے بات چیت سے قبل امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری نے کہا کہ شمالی کوریا عالمی امن کے لیے واضح خطرہ ہے۔
‘‘اس ہفتے کا ٹیسٹ انتہائی اشتعال انگیز اقدام تھا۔ عالمی برادری کو اس کے جواب میں فوری طور پر، مضبوط اور قابل ِ اعتبار کارروائی کرنی چاہیئے۔’’
اقوام متحدہ کی قرارداد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے شمالی کوریا نے جو تیسرا نیوکلیئر ٹیسٹ کیا ہے اس پر ساری دنیا میں تنقید کی گئی ہے۔
چین نے بھی جو شمالی کوریا کا واحد اتحادی ہے اس پر تنقید کی ہے۔
کیری نے کہا ہے کہ شمالی کوریا کے نیوکلیئر پروگرام کی حوصلہ شکنی کے لیے چین مزید اقدامات کر سکتا ہے۔
لیکن کاٹو انسٹی ٹیوٹ کے تجزیہ کار جیسٹن لوگن کہتے ہیں کہ امریکہ نے چین کے ساتھ ایسا رویہ اختیار نہیں کیا ہے جس سے شمالی کوریا کے بارے میں زیادہ سخت پالیسی اختیار کرنے میں اس کی حوصلہ افزائی ہوتی ہو۔
‘‘میرے خیال میں واشنگٹن نے کوریا کے سلسلے میں کوئی جرأت مندانہ اقدام کرنے پر آمادگی ظاہر نہیں کی ہے جس سے یہ امکان پیدا ہو کہ بعض دوسرے شعبوں میں چین اس کے عوض کچھ کرنے کو تیار ہو جائے۔’’
مثال کے طور پر جنوبی کوریا کے لیے امریکہ کی فوجی امداد میں کمی کرنا۔ لوگن کہتے ہیں کہ چین کو ایک طویل عرصے سے یہ تشویش رہی ہے کہ متحدہ جزیرہ نمائے کوریا کے خود اس کی اپنی سیکورٹی پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
‘‘وہ مستقبل پر نظر ڈالتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر ہماری پالیسیوں کے نتیجے میں 10 سے 15 برسوں میں متحدہ کوریا وجود میں آ جاتا ہے اور ہماری سرحد پر امریکی فوجیں موجود ہوتی ہیں تو یہ ہمارے لیے مسئلہ بن جائے گا۔’’
اگرچہ نیوکلیئر ٹیسٹ کی وجہ سے شمالی کوریا اور زیادہ الگ تھلگ ہو گیا ہے، لیکن تجزیہ کار پروفیسر شی ین ہونگ کہتے ہیں کہ چین کس حد تک مدد کر سکتا ہے اس کی بھی کچھ حدود ہیں۔
چین شمالی کوریا کے خلاف اقوامِ متحدہ کی انتہائی وسیع اور سخت مالی پابندیوں کی حمایت نہیں کرے گا کیوں کہ اس طرح چین کی تجارت پر بہت زیادہ اثر پڑے گا ۔ لہٰذا چین امریکہ کے ساتھ بات چیت تو جاری رکھے گا، لیکن وہ ان تمام مطالبات کی حمایت نہیں کرے گا۔
جانز ہاپکنز یونیورسٹی کی پروفیسر روتھ ویچ وڈ کہتی ہیں کہ یہ سمجھنا غلط ہو گا کہ شمالی کوریا کے معاملے میں ہماری مدد کرنے سے چین کو کوئی فائدہ ہو گا۔چچین کو اصل دلچسپی اپنا حلقۂ اثر بڑھانے سے ہے شمالی کوریا کو لگام دینے سے نہیں۔
وزیرِ خارجہ کیری اور سکریٹری جنرل بان نے کہا ہے کہ وہ اقوام ِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے ارکان اور دوسرے اتحادیوں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں تا کہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ شمالی کوریا کے نیوکلیئر ٹیسٹ کا مناسب جواب دیا جائے۔
شمالی کوریا نے دھمکی دی ہے کہ اگر ضروری ہوا تو وہ امریکہ کے رویے کے خلاف جسے وہ معاندانہ رویہ سمجھتا ہے اور زیادہ سخت اقدامات کرے گا۔
پیانگ یانگ میں لوگوں کے ہجوم اس کامیاب نیوکلیئر ٹیسٹ کا جشن منا رہے ہیں جسے شمالی کوریا کے لیڈروں نے اپنے دفاع کی جائز کارروائی قرار دیا ہے۔
اُدھر اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے کہا ہے کہ یہ ٹیسٹ بین الاقوامی برادری کے لیے براہِ راست چیلنج ہے۔
‘‘میں نے پیانگ یانگ کی قیادت سے بار ہا کہا ہے کہ وہ اپنے نیوکلیئر اسلحہ کے حصول کے پروگرام ترک کر دے اور اس کے بجائے اپنے ملک کے لوگوں کے بہتر مستقبل کی تعمیر پر توجہ دے اور ان کی انسانی ضروریات اور انسانی حقوق کی تشویش ناک حالت کو بہتر بنائے۔’’
مسٹر بان سے بات چیت سے قبل امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری نے کہا کہ شمالی کوریا عالمی امن کے لیے واضح خطرہ ہے۔
‘‘اس ہفتے کا ٹیسٹ انتہائی اشتعال انگیز اقدام تھا۔ عالمی برادری کو اس کے جواب میں فوری طور پر، مضبوط اور قابل ِ اعتبار کارروائی کرنی چاہیئے۔’’
اقوام متحدہ کی قرارداد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے شمالی کوریا نے جو تیسرا نیوکلیئر ٹیسٹ کیا ہے اس پر ساری دنیا میں تنقید کی گئی ہے۔
چین نے بھی جو شمالی کوریا کا واحد اتحادی ہے اس پر تنقید کی ہے۔
کیری نے کہا ہے کہ شمالی کوریا کے نیوکلیئر پروگرام کی حوصلہ شکنی کے لیے چین مزید اقدامات کر سکتا ہے۔
لیکن کاٹو انسٹی ٹیوٹ کے تجزیہ کار جیسٹن لوگن کہتے ہیں کہ امریکہ نے چین کے ساتھ ایسا رویہ اختیار نہیں کیا ہے جس سے شمالی کوریا کے بارے میں زیادہ سخت پالیسی اختیار کرنے میں اس کی حوصلہ افزائی ہوتی ہو۔
‘‘میرے خیال میں واشنگٹن نے کوریا کے سلسلے میں کوئی جرأت مندانہ اقدام کرنے پر آمادگی ظاہر نہیں کی ہے جس سے یہ امکان پیدا ہو کہ بعض دوسرے شعبوں میں چین اس کے عوض کچھ کرنے کو تیار ہو جائے۔’’
مثال کے طور پر جنوبی کوریا کے لیے امریکہ کی فوجی امداد میں کمی کرنا۔ لوگن کہتے ہیں کہ چین کو ایک طویل عرصے سے یہ تشویش رہی ہے کہ متحدہ جزیرہ نمائے کوریا کے خود اس کی اپنی سیکورٹی پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
‘‘وہ مستقبل پر نظر ڈالتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر ہماری پالیسیوں کے نتیجے میں 10 سے 15 برسوں میں متحدہ کوریا وجود میں آ جاتا ہے اور ہماری سرحد پر امریکی فوجیں موجود ہوتی ہیں تو یہ ہمارے لیے مسئلہ بن جائے گا۔’’
اگرچہ نیوکلیئر ٹیسٹ کی وجہ سے شمالی کوریا اور زیادہ الگ تھلگ ہو گیا ہے، لیکن تجزیہ کار پروفیسر شی ین ہونگ کہتے ہیں کہ چین کس حد تک مدد کر سکتا ہے اس کی بھی کچھ حدود ہیں۔
چین شمالی کوریا کے خلاف اقوامِ متحدہ کی انتہائی وسیع اور سخت مالی پابندیوں کی حمایت نہیں کرے گا کیوں کہ اس طرح چین کی تجارت پر بہت زیادہ اثر پڑے گا ۔ لہٰذا چین امریکہ کے ساتھ بات چیت تو جاری رکھے گا، لیکن وہ ان تمام مطالبات کی حمایت نہیں کرے گا۔
جانز ہاپکنز یونیورسٹی کی پروفیسر روتھ ویچ وڈ کہتی ہیں کہ یہ سمجھنا غلط ہو گا کہ شمالی کوریا کے معاملے میں ہماری مدد کرنے سے چین کو کوئی فائدہ ہو گا۔چچین کو اصل دلچسپی اپنا حلقۂ اثر بڑھانے سے ہے شمالی کوریا کو لگام دینے سے نہیں۔
وزیرِ خارجہ کیری اور سکریٹری جنرل بان نے کہا ہے کہ وہ اقوام ِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے ارکان اور دوسرے اتحادیوں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں تا کہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ شمالی کوریا کے نیوکلیئر ٹیسٹ کا مناسب جواب دیا جائے۔
شمالی کوریا نے دھمکی دی ہے کہ اگر ضروری ہوا تو وہ امریکہ کے رویے کے خلاف جسے وہ معاندانہ رویہ سمجھتا ہے اور زیادہ سخت اقدامات کرے گا۔