شمالی کوریا نے اتوار کو ایک اور بیلسٹک میزائل کا تجربہ کیا ہے جو اس بات کا عندیہ ہے کہ یہ ایک نئی قسم کا میزائل ہے جو چار ہزار پانچ سو کلومیٹر تک مار کرنے کی صلاحیت کا حامل ہو سکتا ہے۔
جاپان اور کوریا نے فوری طور پر اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ خطے کے لیے خطرہ ہے اور شمالی کوریا کے ہتھیاروں کے پروگرام سے متعلق اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی بھی خلاف ورزی ہے۔
ٹوکیو سے جاپان کی وزیر دفاع تومومی انادہ نے کہا کہ یہ میزائل داغے جانے کے 30 منٹ کے بعد تقریباً سات سو کلومیٹر کا فاصلے طے کر کے بحیرہ جاپان میں گر گیا اور یہ مقام شمالی کوریا کے مشرقی ساحل سے چار سو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
انادہ نے کہا کہ یہ ایک نئی قسم کے میزائل کا تجربہ ہو سکتا ہے تاہم پیانگ یانگ کی طرف سے اس بارے میں کوئی فوری بیان سامنے نہیں آیا ہے۔
جنوبی کوریا کے صدر مون جا ان نے میزائل داغے جانے کے عمل کی مذمت کرتے ہوئے اسے پیانگ یانگ کی "نتائج سے بے پرواہ اشتعال انگیزی" قرار دیا۔ صدر مون نے سیئول میں اپنے اعلیٰ مشیروں کے اجلاس میں میزائل داغے جانے کو وقت خاص طور پر افسوس ناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ صدر بننے کے بعد انہوں نے شمالی کوریا کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرنے کے لیے کوشش کرنے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔
دوسری طرف ہوائی میں امریکہ کی پیسیفک کمانڈ نے یہ راکٹ داغے جانے کی تصدیق کی ہے تاہم کہا کہ یہ نامعلوم پروجیکٹائل بظاہر اتنا بڑا نہیں کہ اسے بین البراعظمیٰ میزائل کہا جا سکے جس کے بارے میں شمالی کوریا کا دعویٰ کہ وہ یہ ہتھیار بنا رہا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے ایک عہدیدار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ان کے قومی سلامتی کے مشیر ایچ آر میک ماسٹر نے فون پر شمالی کوریا کے میزائل تجربے سے متعلق بریفنگ دی ہے۔
ایک روز قبل ہی شمالی کوریا کے ایک اعلیٰ سفارت کار نے کہا تھا کہ پیانگ یانگ مناسب حالات میں امریکہ کے ساتھ دونوں ملکوں کے تنازعات کے بارے میں بات چیت کرنے کے لیے تیار ہو گا۔
شمالی کوریا کے وزارت خارجہ کے امریکی امور سے متعلق ڈائریکٹر جنرل چو سون ہوئی نے ناروے کے دورے سے واپیس پر بیجنگ میں نامہ نگاروں سے گفتگو کرتے ہوئے اس معاملے پر بات کی۔