پیانگ یانگ کے مرکزی نشریاتی ادارے نے کہا ہے کہ ملک کے اعلیٰ ترین رہنما نے رات دیر گئے ایک ہنگامی اجلاس میں بحرالکاہل میں امریکی اڈوں بشمول ہوائی، گوام اور جنوبی کوریا میں موجود اڈوں پر حملوں کے منصوبے کی منظوری دی۔
شمالی کوریا نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے رہنما نے راکٹ بردار فوجیوں کو امریکہ پر حملے کے لیے تیار رہنے کی ہدایت کی ہے۔
جنوبی کوریا کی وزارت قومی دفاع کا کہنا ہے کہ وہ جمعہ کو شمال کے درمیانے اور دور مار میزائلوں کی ہونے والی نقل و حرکت کی تصدیق نہیں کر سکتی لیکن اس بات کا اعتراف کیا گیا ہے کہ امریکہ اور جنوبی کوریا کے انٹیلی جنس حکام نے ان کی نگرانی بڑھا دی ہے۔
سیول میں نیم سرکاری خبر رساں ایجنسی یونہاپ نے عسکری ذرائع کے حوالے سے کہا کہ ’’حال ہی میں شمالی کوریا کے درمیانے اور دور مار میزائلوں والے علاقے میں فوجیوں اور گاڑیوں کی بہت تیز نقل و حرکت دیکھی گئی ہے۔‘‘
یہ اقدام پیانگ یانگ کی طرف سے کیے گئے اس اعلان کے بعد سامنے آیا ہے جس میں صدر کم جونگ اُن نے کہا تھا کہ ’’امریکی سامراج سے حساب برابر کرنے کا وقت آگیا ہے‘‘ اور میزائل یونٹس اب چوکنا ہیں۔
پیانگ یانگ کے مرکزی نشریاتی ادارے نے کہا ہے کہ ملک کے اعلیٰ ترین رہنما نے رات دیر گئے ایک ہنگامی اجلاس میں بحرالکاہل میں امریکی اڈوں بشمول ہوائی، گوام اور جنوبی کوریا میں موجود اڈوں پر حملوں کے منصوبے کی منظوری دی۔
جنوبی کوریا کی وزارت دفاع کے ایک ترجمان کم مِن سیوک نے کہا ہے کہ بظاہر یہ شمالی کوریا کی پروپیگنڈہ مشق معلوم ہوتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسے آپریشنل احکامات قوانین کے مطابق خفیہ طور پر دیے جاتے ہیں لیکن ان کے بقول اس طرح سے ان اطلاعات کو پوری دنیا کے لیے نشر کرنا ایک نفسیاتی اقدام معلوم ہوتا ہے۔
پیانگ یانگ میں ہونے والے اس ہنگامی اجلاس جمعرات کو امریکی فضائیہ کے دو بی۔ٹو بمبار طیاروں کی جنوبی کوریا پر کی جانے والی پروزاوں کے ردعمل میں کیا گیا۔ پیانگ یانگ سے نشر ہونے والی خبروں میں کہا ہے کہ ان کے رہنما کے نزدیک یہ پروازیں اس بات کا انتباہ تھا کہ امریکہ ’’جوہری جنگ شروع کر سکتا ہے‘‘۔
امریکہ کے وزیردفاع چک ہیگل نے راڈار پر نظر نہ آنے والے ان طیاروں کی پروزاوں کا مقصد اشتعال دلانا نہیں تھا بلکہ ان کے بقول خطے میں اپنے اتحادیوں کو یہ یقین دلانا تھا کہ دفاع کے لیے امریکہ ان کی مدد کے لیے تیار ہے۔
جنوبی کوریا کی وزارت قومی دفاع کا کہنا ہے کہ وہ جمعہ کو شمال کے درمیانے اور دور مار میزائلوں کی ہونے والی نقل و حرکت کی تصدیق نہیں کر سکتی لیکن اس بات کا اعتراف کیا گیا ہے کہ امریکہ اور جنوبی کوریا کے انٹیلی جنس حکام نے ان کی نگرانی بڑھا دی ہے۔
سیول میں نیم سرکاری خبر رساں ایجنسی یونہاپ نے عسکری ذرائع کے حوالے سے کہا کہ ’’حال ہی میں شمالی کوریا کے درمیانے اور دور مار میزائلوں والے علاقے میں فوجیوں اور گاڑیوں کی بہت تیز نقل و حرکت دیکھی گئی ہے۔‘‘
یہ اقدام پیانگ یانگ کی طرف سے کیے گئے اس اعلان کے بعد سامنے آیا ہے جس میں صدر کم جونگ اُن نے کہا تھا کہ ’’امریکی سامراج سے حساب برابر کرنے کا وقت آگیا ہے‘‘ اور میزائل یونٹس اب چوکنا ہیں۔
پیانگ یانگ کے مرکزی نشریاتی ادارے نے کہا ہے کہ ملک کے اعلیٰ ترین رہنما نے رات دیر گئے ایک ہنگامی اجلاس میں بحرالکاہل میں امریکی اڈوں بشمول ہوائی، گوام اور جنوبی کوریا میں موجود اڈوں پر حملوں کے منصوبے کی منظوری دی۔
جنوبی کوریا کی وزارت دفاع کے ایک ترجمان کم مِن سیوک نے کہا ہے کہ بظاہر یہ شمالی کوریا کی پروپیگنڈہ مشق معلوم ہوتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسے آپریشنل احکامات قوانین کے مطابق خفیہ طور پر دیے جاتے ہیں لیکن ان کے بقول اس طرح سے ان اطلاعات کو پوری دنیا کے لیے نشر کرنا ایک نفسیاتی اقدام معلوم ہوتا ہے۔
پیانگ یانگ میں ہونے والے اس ہنگامی اجلاس جمعرات کو امریکی فضائیہ کے دو بی۔ٹو بمبار طیاروں کی جنوبی کوریا پر کی جانے والی پروزاوں کے ردعمل میں کیا گیا۔ پیانگ یانگ سے نشر ہونے والی خبروں میں کہا ہے کہ ان کے رہنما کے نزدیک یہ پروازیں اس بات کا انتباہ تھا کہ امریکہ ’’جوہری جنگ شروع کر سکتا ہے‘‘۔
امریکہ کے وزیردفاع چک ہیگل نے راڈار پر نظر نہ آنے والے ان طیاروں کی پروزاوں کا مقصد اشتعال دلانا نہیں تھا بلکہ ان کے بقول خطے میں اپنے اتحادیوں کو یہ یقین دلانا تھا کہ دفاع کے لیے امریکہ ان کی مدد کے لیے تیار ہے۔