پشاور میں پیر سے شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والے خاندانوں کی رجسٹریشن کے عمل کا آغاز کیا گیا جو حکام کے مطابق 14 جولائی تک جاری رہے گا۔
پیر کی صبح ہی سے حیات آباد میں قائم رجسٹریشن کے مرکز کے باہر نقل مکانی کرنے والے خاندانوں کے افراد جمع ہونا شروع ہو گئے تھے اور طویل قطاریں دیکھنے میں ملیں۔
لوگوں کا رش اور رجسٹریشن کے پہلے دن ناکافی انتظامات کے باعث ایک موقع پر پولیس کو بھی مداخلت کرنا پڑی، جب کہ اطلاعات کے مطابق لاٹھی چارج بھی کیا گیا۔
آفات سے نمٹنے کے علاقائی ادارے فاٹا ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کے عہدیدار ڈاکٹر حسیب نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ حکومت چاہتی ہے کہ نقل مکانی کرنے والے تمام افراد کو رجسٹرڈ کیا جائے اور اسی مقصد کے حصول کے لیے پشاور میں رجسٹریشن کا آغاز کیا گیا ہے۔
"ہم یہ چاہتے ہیں جو لوگ باقی رہ گئے ہیں ان کی رجسٹریشن ہو سکے کوئی رہ نہ جائے اور اس میں بعض لوگ ایسے بھی آ رہے ہیں جو دو دو تین تین بار پہلے سے رجسٹرڈ ہو چکے ہیں لیکن پھر بھی رجسٹریشن کے لیے آ رہے ہیں تو ہم یہ چاہتے ہیں جو صحیح حقدار ہیں وہ رہ نہ جائیں۔۔۔۔ہم روزانہ یہاں پر تقریباً زیادہ سے زیادہ تین چار ہزار لوگوں سے ڈیل کر سکتے ہیں۔"
شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے اختر رسول کا کہنا ہے کہ وہ ان دنوں اسلام آباد میں مقیم ہیں اور محض رجسٹریشن کے لیے پیر کی صبح پشاور پہنچے لیکن اُن کے بقول بدنظمی کے باعث وہ اپنا اندراج ہی نا کروا سکے۔
"صبح سات بجے اس کا ٹائم رکھا گیا تھا، میں صبح تین بجے اسلام آباد سے نکلا، جب یہاں پہنچ گیا تو ادھر اتنی لمبی قطاریں تھیں کہ بالکل کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔"
شمالی وزیرستان نقل مکانی کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد سب سے پہلے قبائلی علاقوں سے متصل خیبر پختونخواہ کے جنوبی ضلع بنوں پہنچی جہاں اُن کے لیے ایک کیمپ بھی قائم کیا گیا ہے۔
تاہم بڑی تعداد میں لوگ صوبے کے دیگر اضلاع میں بھی منتقل ہوئے ہیں اور اُن کا مطالبہ تھا کہ پشاور کے علاوہ کچھ اور شہروں میں بھی رجسٹریشن شروع کی جائے۔
حکومت کی طرف سے امدادی رقوم کی فراہمی کے لیے رجسٹریشن ضروری ہے۔
اُدھر وفاقی وزارت خزانہ کی طرف شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والے خاندانوں کے لیے اب تک چار ارب اٹھائیس کروڑ روپے جاری کیے جا چکے ہیں جب کہ اس بارے میں وزیراعظم نواز شریف کو ایک رپورٹ بھی پیش کی گئی ہے۔