متاثرین شمالی وزیرستان کا پشاور اور بنی گالہ کے سامنے احتجاجی دھرنے کا اعلان

شمالی وزیرستان متاثرین کمیٹی کے چیئرمین ملک غلام خان پریس کانفرنس کرتے ہوئے۔ 13 دسمبر 2018۔

متاثرین قومی کمیٹی شمالی وزیرستان نے حکومت کی جانب سے ’آئی ڈی پیز‘ کو سہولیات اور بقایاجات ادا نہ کرنے پر 20 دسمبر کو اپنے مطالبات کے حق میں پشاور اور بنی گالہ کے سامنے احتجاجی دھرنے کا اعلان کیا ہے۔

پشاور پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کمیٹی کے چیئرمین ملک غلام خان، اور دیگر عمائدین کا کہنا تھا کہ خیموں میں رہائش پذیر ’آئی ڈی پیز‘ سخت سردی میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، جبکہ کیمپوں سے باہر مقیم متاثرین کو حکومت سے نہ تو مالی امداد مل رہی ہے، نہ ہی راشن۔

عمائدین نے کہا ہے کہ حکومت نے شین، پونڑ اور دیگر علاقوں کے 244 سے زیادہ متاثرین کی ادائیگی کو دوبارہ بند کر دیا ہے، جس کی وجہ سے ’آئی ڈی پیز‘ کے لاکھوں روپے رکے ہوئے ہیں، جس کے بعد متاثرین فاقوں پر مجبور ہوگئے ہیں۔

انھوں نے الزام لگایا کہ بکاخیل کیمپ میں 800 خاندانوں کی مالی امداد روکی گئی ہے، جسے فوری طور پر جاری کیا جائے۔

عمائدین نے کہا ہے کہ ’’افغانستان سے واپس آنے والے 1300 ’آئی ڈی پیز‘ کے پاس سرکاری دستاویزات موجود تھے، جس کے باوجود بھی انہیں افغانستان بارڈر پر روکا گیا ہے۔ حکومت انہیں اجازت دینے کے فوری اقدامات کرے‘‘۔

سابق قبائلی علاقوں میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارے کے ترجمان احسان داوڑ نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ ان کی کوشش ہے کہ ان متاثرہ افراد کے مسائل جلد از جلد حل کیے جائیں۔ نادرا سے رپورٹ موصول ہونے کے بعد متاثرہ خاندانوں کو 12000 روپے ماہوار ادائیگی اور سیکیورٹی فورسز کی جانب سے کلیئرنس ملنے کے بعد ان لوگوں کو اپنے اپنے علاقوں کی طرف واپسی کا عمل بھی شروع کیا جائیگا۔

حکومتی اداروں کے مطابق، شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے 15 ہزار سے زائد خاندانوں کی واپسی ابھی تک نہیں ہوئی۔ اور یہ کہ، ان خاندانوں کو ماہوار معاوضہ بھی نہیں دیا جا رہا ہے، جبکہ افغانستان سے واپس آنے والے دو ہزار سے زائد خاندان ابھی تک بنوں کے قریب بکاخیل کی خیمہ بستی میں مقیم ہیں۔ افغانستان نقل مکانی کرنے والے 800 خاندانوں کی ابھی تک رجسٹریشن مکمل نہیں ہوئی، اور یہ لوگ سرحد پار افغانستان میں کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔