ناروے میں درجنوں افراد کے اقراری قاتل کے خلاف جاری مقدمے کی کاروائی کے موقع پر کمرہ عدالت کے باہر ہزاروں افراد نے جمع ہوکر بین الثقافتی ہم آہنگی کے حق میں نغمہ گنگنایا۔
ملزم آندرے بیرنگ بریوک کے خلاف دارالحکومت اوسلو کی ایک عدالت میں 77 افراد کے قتل کے الزام میں مقدمہ چلایا جارہا ہے۔ملزم نے ان افراد کو گزشتہ برس دارالحکومت کی ایک سرکاری عمارت اور ایک نزدیکی جزیرے پہ جاری نوجوانوں کے تربیتی کیمپ پر حملے کرکے ہلاک کردیا تھا۔
بریوک نے عدالت کے روبرواعتراف کیا ہے کہ اس نے ناروے میں فروغ پذیر بین الثقاتی ہم آہنگی اور "یورپ پہ مسلمانوں کی یلغار" کو روکنے کی غرض سے ان افراد کو نشانہ بنایا تھا۔
جمعرات کو عدالتی کاروائی کے موقع پر کمرہ عدالت کے باہر ہزاروں نارویجن شہری جمع ہوئے جنہوں نے ہاتھوں میں گلاب اورقومی پرچم اٹھا رکھے تھے۔
اس موقع پر ہزاروں افراد کے اس مجمع نے مقامی لوک گلوکارہ للی جورن نلسن کے ہمراہ بچوں کا مشہور نغمہ "مائے رینبو ریس" گنگنایا جسے گزشتہ ہفتے بریوک نے عدالت کے روبرو دیے جانے والے اپنے بیان میں "برین واشنگ کا مارکسسٹ طریقہ" قرار دیا تھا۔
دریں اثنا کمرہ عدالت میں جاری مقدمے کی سماعت میں ایک 24 سالہ لڑکی نے حملے کا شکار ہونے کے بعد کی اپنی آپ بیتی سے عدالت کو آگاہ کیا۔
لڑکی نے بتایا کہ اس کا دفتر اس عمارت میں تھا جسے بریوک نے بم کا نشانہ بنایا تھا اور اس بم دھماکے بعد وہ کوما میں چلی گئی جس کے نتیجے میں اسے اپنی یاد داشت سے بھی محروم ہونا پڑا۔
اسی عمارت میں کام کرنے والے ایک اور شخص نے عدالت کے روبرو گواہی دیتے ہوئے بتایا کہ بم دھماکے کے نتیجے میں اسے اپنی 80 فی صد بینائی سے محروم ہونا پڑا ہے۔
یاد رہے کہ عمارت میں ہونے والے بم دھماکے میں آٹھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔
قبل ازیں بدھ کو ہونے والی سماعت کے دوران میں ملزم نے کہا تھا کہ عدالت کی جانب سے اس کے نفسیاتی معائنے کے لیے متعین کیے جانے والے ماہرینِ نفسیات کی وہ رپورٹ حقیقت پہ مبنی نہیں ہے جس میں ملزم کو ہوش و ہواس سے عاری شخص قرار دیا گیا ہے۔
ملزم نے اس سے قبل عدالت کے روبرو کہا تھا کہ عدالت کی جانب سے اسے مخبوط الحواس قرار دیا جانا "سزائے موت سے بھی بدتر ہوگا"۔
گزشتہ ہفتے ہونے والی سماعت کے دوران میں انتہا پسند عیسائی بریوک نے اوسلو کے نواحی جزیرے میں جاری نوجوانوں کے ایک تربیتی کیمپ پر اپنے حملے کی دہشت ناک تفصیلات سے آگاہ کیا تھا۔
اس کیمپ میں ملزم کی فائرنگ سے 69 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
واضح رہے کہ ناروے کے قانون میں موت کی سزا نہیں ہے۔ لہذا عدالت کی جانب سے بریوک پر عائد تمام الزامات درست اور اسے ذہنی طور پر متوازن قرار دینے کی صورت میں ملزم کو زیادہ سے زیادہ 21 سال قید کی سزا سنائی جاسکتی ہے جس میں مشروط اضافہ بھی کیا جاسکتا ہے۔