امریکی پابندیوں کے نتیجے میں ایران میں کتابوں کی اشاعت متاثر

تہران کی ایک سڑک پر کتابیں بیچی جا رہی ہیں، چند ہی خریدار نظر آتے ہیں۔ 29 جنوری، 2022ء

ایران میں ادب کے شوقین بھی امریکی پا بندیوں کی زد میں آگئے ہیں۔ ایک نیا ناول ،اقتصادی طور پر جکڑے اُس بحران سے کچھ دیر کےلیے سکون دیتا تھا جس میں ،تہران کے مبینہ جوہری پروگرام کے خلاف لگنے والی بین الاقوامی تعزیرات سے اضافہ ہو گیا ہے۔لیکن اب کتاب کی خریداری اور مطالعے میں محو ہو جانا مشکل ہوتا جا رہا ہے،کیونکہ مالی مسائل کا شکار پبلشر کاغذ کی قیمتوں میں بے انتہا اضافے کے باعث، کتابیں چھاپنے میں دشواری محسوس کر رہے ہیں۔

اے ایف پی کے مطابق ،افق پبلشنگ ہاؤس کے رضا ہاشم نجاد کا کہنا ہے کہ دوسو صفحات کا ایک ناول، جو پچھلے سال ایک ڈالر، ساٹھ سینٹ میں فروخت ہوتا تھا، آج اس کی قیمت چارڈالردس سینٹ ہوگئی ہے۔

ایران خودکاغذ کا گودا نہیں بناتا ،اس لیے اسے برآمد پر انحصار کرنا پڑتا ہے ،اور چونکہ کاغذ پابندیوں کےدائرے میں نہیں ہے اس لیے اس کی قیمت بیرونی کرنسی میں ادا کرنی پڑتی ہے،جس کا مطلب یہ ہے کہ کتاب کی قیمت براہ راست ایران کے ریال کے اتار چڑھاؤ پر منحصر ہوتی ہے۔اس لیے پبلشر نہ صرف یہ کہ کم کتابیں چھاپ رہے ہیں بلکہ کتابت کا سائز چھوٹا کرکے ،صفحات کو بھی کم کرتے جا رہے ہیں۔ لوگوں کے مطالعے کے انداز اور کتابوں کے استعمال میں کمی کے باعث ، یوں تو دنیا بھر میں پبلشرز کو مشکلات کا سامنا ہے لیکن ایران کی دشواریاں اضافی نوعیت کی ہیں ۔

امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سن 2018ء میں امریکہ کو یک طرفہ طور پر اُس تاریخ ساز معاہدے سے علیحدہ کر لیا تھا ،جو ایران کے ساتھ اس کے جوہری پروگرام کو روکنے کےلیے طے کیا گیا تھ، جبکہ ایران ہمیشہ اس مقصد سے انکار کرتا ہے۔واشنگٹن نے اس کے بعد سے ایران پر سخت پابندیا ں نافذ کر دی تھیں۔ ایک پبلشر ، امرائی کا کہنا ہے کہ سن 2018ء میں امریکی تعزیرات کے دوبارہ لگتے ہی ،کاغذ کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں ۔

ایک معجزہ

ایران کے ساتھ معاہدے کی بحالی کے مذاکرات طویل عرصے سے جاری ہیں ،لیکن جب تک ایک بین الاقوامی معاہدہ طے نہیں پا جاتا ، پابندیوں کے اثرات بد سے بد تر ہوتے جارہے ہیں۔

بچوں کی کتابیں چھاپنے والے ادارے، ہوپا کے مالک، حسین متولی کا کہنا ہے کہ ملکی کرنسی کی گراوٹ،کاغذ کی عالمی قیمتوں میں اضافہ ،جو ڈالر میں ادا کرنا پڑتا ہے،ٹرانسپورٹ کے اخراجات میں اضافہ ، جو غیر ملکی کرنسی میں دینا ہوتا ہے ،ان سب نے کتابوں کی چھپائی کو مشکلات میں ڈال دیا ہے،کیونکہ ایران میں کتابوں کی قیمتیں مقرر ہیں ،منافع ، کاغذ کی قیمتوں کے ساتھ اوپر نیچے ہوتا رہتا ہے۔

ہاشم نجاد کہتے ہیں کہ اگر کاغذ کی قیمت میں فوری اضافہ ہو جائے تو مسودے کی وصولی سےلے کر اس کی چھپائی اور کتاب کی قیمت مقرر کرنے تک ،مجھے ہر چیز پر نقصان ہوتا ہے۔

جہاں تک مصنفوں کی بات ہے ،انہیں کتابوں کے صفحات کے حساب سے ادائیگی کی جاتی ہے ،چاہے وہ مشہور ہوں یا نہ ہوں۔کتابیں بیچنا آج کسی معجزے سے کم نہیں ،کیونکہ خریدنے والوں کی اکثریت درمیانی کلاس سے تعلق رکھتی ہے۔اور ہاشم نجاد کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس طبقے کی ترجیح اقتصادی حالات کے باعث ضروری اشیاء خریدنے پر ہے۔ان کا کہنا تھا کہ انہیں تعجب ہے کہ لوگ ان قیمتوں پر کتابیں کیسے خرید لیتے ہیں ۔ لیکن جوں جوں بحران گہرا ہوتا جارہا ہے،بہت سے کتابیں چھاپنے والے اپنا کاروبار بند کر رہے ہیں۔

ہاشم نجاد نے کہا ہے کہ ہم نے جتنا ممکن ہو اپنا نفع کم کر دیا ہے، تاکہ گاہگ ٹوٹنے نہ پائیں۔ہم نے چھپائی کم کر دی ہے اور کاغذ کے بجائے ،ڈیجیٹل بک چھاپ رہے ہیں تاکہ لاگت کم آئے۔ابھی تک وہ کتابیں سٹاک میں ہیں جو کاغذ کی قیمتیں بڑھنے سے پہلے تھیں ،لیکن آہستہ آہستہ وہ کتابیں اب کم ہو رہی ہیں اور کچھ عرصے کے بعد جب یہ سٹاک ختم ہو جائیگا اور صارفین جب نئی قیمتیں دیکھیں گے تو انہیں ایک جھٹکا لگے گا۔

انقلاب سٹریٹ میں، جو کتابوں کا بڑا بازار ہے ،ایک ساٹھ سالہ ریٹائرڈ استاد ،بہجت مظلومی جن کے لیے پرانی کتابیں خریدنا پہلےبھی مشکل ہوتا تھا، کہتے ہیں کہ میں نے پچھلے کئی سال سے کوئی کتاب نہیں خریدی،کیونکہ سڑک پر کتاب بیچنے والوں نے بھی اپنی قیمتیں بہت بڑھا دی ہیں۔

ہاشم نجاد کا یہ بھی کہنا ہے کہ غریب بستیوں کے بچوں کےلیے، جن کی ادب تک رسائی پہلے ہی محدود ہے، ان ہوشربا قیمتوں کا مقابلہ کرنا ناممکن ہو جائیگا ۔انکا کہنا تھا کہ پسماندہ علاقوں کے وہ لوگ جو صحیح طور پر فارسی میں بات بھی نہیں کرسکتے ،ان کے لیے جینا مشکل ہو جائے گا۔

(خبر کا مواد اے ایف پی سے لیا گیا)