جرمنی آئندہ چند روز میں اپنے خفیہ اداروں کے عہدیداروں کو امریکہ بھیج رہا ہے جو جاسوسی کے ان الزامات کے جوابات تلاش کریں گے۔
ایک جرمن رسالے 'در اسپائگل' کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی شاید 2002ء سے زائد عرصے سے جرمن چانسلر آنگلا مرخیل کے فون کی نگرانی کرتی رہی ہے۔
در اسپائگل نے مرخیل کے دفتر کے ایک ذرائع کے حوالے سے یہ بھی کہا ہے کہ گزشتہ بدھ کو امریکی صدر براک اوباما نے جرمن رہنما سے اس وقت معذرت بھی کی تھی جب آنگلا مرخیل نے اس معاملے پر انھیں فون کیا تھا۔
مرخیل اور وائٹ ہائوس نے اس پر تبصرے سے انکار کیا۔
جرمنی آئندہ چند روز میں اپنے خفیہ اداروں کے عہدیداروں کو امریکہ بھیج رہا ہے جو جاسوسی کے ان الزامات کے جوابات تلاش کریں گے۔
امریکہ کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی کے سابق کنٹریکٹر ایڈورڈ اسنوڈن کی طرف سے شہریوں اور عالمی رہنمائوں کے انٹرنیٹ اور ٹیلی فون ریکارڈز کی امریکی نگرانی سے متعلق معلومات افشا کیے جانے کے بعد سے اس معاملے پر عالمی سطح پر غم و غصہ پایا جاتا ہے۔
جرمنی اور برازیل مل کر الیکٹرانک رابطوں سے متعلق لوگوں کی رازداری کو یقینی بنانے کے لیے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں قرارداد پیش کرنے کے لیے مسودے پر بھی کام کر رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے سفارتکاروں نے کہا ہے کہ مجوزہ قرارداد میں شہری اور سیاسی حقوق سے متعلق بین الاقوامی معاہدے کا دائرہ کار انٹرنیٹ پر ہونے والی سرگرمیوں تک بڑھانے کا مطالبہ کیا جائے گا، تاہم اس میں امریکہ کا ذکر نہیں کیا جائے گا۔
دریں اثناء کم ازکم ایک ہزار افراد نے این ایس اے کی جاسوسی کے خلاف کپیٹل ہل کے باہر مظاہرہ کیا، انھوں نے لوگوں کی رازداری کی نگرانی کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔
صدر براک اوباما نے اسنوڈن کی طرف سے معلومات افشا کیے جانے کے بعد امریکی نگرانی کے پروگرامز کا از سر نو جائزہ لینے کا حکم دیا ہے۔
در اسپائگل نے مرخیل کے دفتر کے ایک ذرائع کے حوالے سے یہ بھی کہا ہے کہ گزشتہ بدھ کو امریکی صدر براک اوباما نے جرمن رہنما سے اس وقت معذرت بھی کی تھی جب آنگلا مرخیل نے اس معاملے پر انھیں فون کیا تھا۔
مرخیل اور وائٹ ہائوس نے اس پر تبصرے سے انکار کیا۔
جرمنی آئندہ چند روز میں اپنے خفیہ اداروں کے عہدیداروں کو امریکہ بھیج رہا ہے جو جاسوسی کے ان الزامات کے جوابات تلاش کریں گے۔
امریکہ کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی کے سابق کنٹریکٹر ایڈورڈ اسنوڈن کی طرف سے شہریوں اور عالمی رہنمائوں کے انٹرنیٹ اور ٹیلی فون ریکارڈز کی امریکی نگرانی سے متعلق معلومات افشا کیے جانے کے بعد سے اس معاملے پر عالمی سطح پر غم و غصہ پایا جاتا ہے۔
جرمنی اور برازیل مل کر الیکٹرانک رابطوں سے متعلق لوگوں کی رازداری کو یقینی بنانے کے لیے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں قرارداد پیش کرنے کے لیے مسودے پر بھی کام کر رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے سفارتکاروں نے کہا ہے کہ مجوزہ قرارداد میں شہری اور سیاسی حقوق سے متعلق بین الاقوامی معاہدے کا دائرہ کار انٹرنیٹ پر ہونے والی سرگرمیوں تک بڑھانے کا مطالبہ کیا جائے گا، تاہم اس میں امریکہ کا ذکر نہیں کیا جائے گا۔
دریں اثناء کم ازکم ایک ہزار افراد نے این ایس اے کی جاسوسی کے خلاف کپیٹل ہل کے باہر مظاہرہ کیا، انھوں نے لوگوں کی رازداری کی نگرانی کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔
صدر براک اوباما نے اسنوڈن کی طرف سے معلومات افشا کیے جانے کے بعد امریکی نگرانی کے پروگرامز کا از سر نو جائزہ لینے کا حکم دیا ہے۔