جوہری معاہدے سے متعلق ایران کی تجویز پر امریکہ کا محتاط ردِ عمل

فائل فوٹو

امریکہ نے ایران کی اس تجویز پر کہ ایٹمی معاہدے میں واپس آنے کے لیے واشنگٹن اور تہران مربوط اقدام کریں، اپنے ردِ عمل میں کہا ہے کہ ایرانیوں کے ساتھ بات چیت یا ان کی تجاویز پر غور کے لیے ابھی کچھ کام باقی ہے۔

ایرانی وزیرِ خارجہ جواد ظریف نے پیر کے روز کہا تھا کہ واشنگٹن کے ساتھ تعطل دور کرنے کا ایک طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ یورپی یونین کا کوئی عہدیدار ایسے اقدامات تشکیل دے جو 2015 کے اس ایٹمی معاہدے کی بحالی میں مدد دیں جس سے اس وقت کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ 2018 میں الگ ہو گئے تھے۔

یہ پہلا موقع تھا کہ جواد ظریف نے اس بارے میں اشارۃً کچھ کہا کہ ایران اپنی ذمے داریاں پوری کرنے سے پہلے امریکی تعزیریں ختم کرنے کے اپنے مطالبے سے دست بردار ہو سکتا ہے۔

امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا ہے کہ ایران کے ساتھ ہماری کوئی بات چیت نہیں ہوئی ہے اور ایسا اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک کہ کچھ ابتدائی اقدامات نہ اٹھا لیے جائیں۔

دنیا کی چھ عالمی طاقتوں کے ساتھ ایران کے 2015 کے معاہدے کے تحت تہران امریکہ اور دوسری اقتصادی پابندیاں نرم کرنے کے بدلے میں اپنے جوہری پروگرام کو اس حد تک محدود کرنے پر متفق ہو گیا تھا جس سے جوہری ہتھیار بنانا مشکل تر ہو جائے۔

بعد ازاں صدر ٹرمپ نے معاہدے سے الگ ہونے کے بعد ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کر دی تھیں۔