نیوکلیئر سکیورٹی سربراہی کانفرنس کےاختتام پر منگل کی شام جاری ہونے والے اعلامیے میں مؤثر بین الاقوامی تعاون پر زور دیا گیا ہے جِس کی مدد سے تخفیفِ اسلحہ، جوہری عدم پھیلاؤ اور نیوکلیئر صلاحیت کے پُر امن استعمال کو یقینی بنایا جاسکے، تاکہ جوہری سکیورٹی کے تقاضے پورے کیے جاسکیں۔
اِس اہم دستاویز میں کہا گیا ہے کہ نیوکلیئر دہشت گردی بین الاقوامی سلامتی کے لیے سنگین چیلنج ہے، جس سے نمٹنے کے لیے مؤثر جوہری سکیورٹی کے اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ دہشت گردوں، جرائم پیشہ عناصراور دیگر غیر ریاستی عناصر جوہری مواد تک رسائی نہ حاصل کر سکیں۔
دستاویز میں کہا گیا ہے کہ دو روزہ بین الاقوامی سربراہی اجلاس کے شرکا اِس عزم کا اظہار کرتے ہیں کہ جوہری سکیورٹی کے ہدف کو حاصل کرنا سب کی ذمہ داری ہے۔ اِس لیے تمام شرکا اِس کا عزم کرتے ہیں کہ مل کر جوہری سکیورٹی کے استحکام اور جوہری دہشت گردی کے خطرے سے نبر آزما ہونے کے لیے مؤثر اقدام کریں گے۔
دستاویز کے الفاظ میں، ‘اِس ضمن میں کامیابی کے حصول کا دارومدار ذمہ دارانہ قومی اقدامات اور مستقل اور مؤثر بین الاقوامی تعاون پر منحصر ہے۔’
دستاویز میں صدر اوباما کی طرف سے چار برس کے اندر اندر خطرے سے دوچار جوہری مواد کو محفوظ بنانے کے مطالبے کا خیر مقدم کیا گیا ہے، ‘اور ہم اِس میں شامل ہونے کا اعلان کرتے ہیں، اور یہ کہ ہم نیوکلیئر سلامتی کو فروغ دینے کے لیے مل کر کام کریں گے۔’
اعلامیے میں اِس عزم کا اظہار کیا گیا ہے کہ بین الاقوامی ذمہ داریوں کے تحت، یہ ہر ملک کے بنیادی فرائض کا حصہ ہے کہ تمام جوہری مواد کی مؤثر سکیورٹی کو یقینی بنایا جائے۔
دستاویز میں إِس بات پر زور دیا گیا ہے کہ بین الاقوامی برادری کے تعاون کے جذبے کے تحت کام کرتے ہوئے جوہری سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے ضرورت پڑنے پر مدد کے لیے درخواست کی ، اور مدد فراہم کی جاسکتی ہے۔
اِس میں کہا گیا ہے کہ نیوکلیئر سکیورٹی کے حصول کے لیے لازم ہے کہ تمام بین الاقوامی معاہدوں،اور ضوابط و قوائد کی پابندی کی جائے۔
دستاویز میں کہا گیا ہے کہ جوہری سکیورٹی کا اگلا سربراہی اجلاس جنوبی کوریا میں سال 2012میں منعقد ہوگا۔
واشنگٹن میں بین الاقوامی جوہری سکیورٹی کا سربراہی اجلاس اپریل کی 11اور 12تاریخ کو ہوا جس میں 47ممالک نے شرکت کی، جن میں دیگر ملکوں کے علاوہ پاکستان اور بھارت کے سربراہانِ مملکت بھی شامل تھے۔
یہ اعلامیہ ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب روس کے صدر دمتری مدیدیو نے اعلان کیا ہے کہ اُن کی حکومت اپنی آخری پلوٹونیم فیکٹری کو بند کردےگی، جو اُن عالمی کوششوں میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے جِن کا مقصد ایسے مواد کے پھیلاؤ کو محدود کرنا ہے جو نیوکلیئر ہتھیاروں کی تیاری میں استعمال ہو سکتے ہیں۔
اعلامیے میں شریک ملکوں کو 12ذمہ داریاں پوری کرنے کو کہا گیا ہے جن میں یہ وعدہ بھی شامل ہے کہ وہ اپنے اپنے ملکوں کے اندر نیوکلیئر مواد کا مؤثر تحفظ جاری رکھیں گے۔
اعلامیے میں اقوام سے ایک مخصوص ورک پلان پر بھی عمل درآمد کے لیے کہا گیا ہے جس میں شریک ملکوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ بین الاقوامی کوششوں میں شامل ہوں جن کا مقصد نیوکلیئر مواد کے تبادلے کو محدود کرنا اور ملکوں کو إِس بات پر آمادہ کرنا ہے کہ وہ نیوکلیئر سکیورٹی کے اقدامات کے لیے تحرک میں آئیں۔
دستاویز کے مطابق، شریک ممالک اس بات کا عہد کرتے ہیں کہ غیر سرکاری گروہوں کو اس بات سے دور رکھا جائے گا کہ وہ ایسی معلومات اور ٹیکنالوجی حاصل نہ کریں جس کی مدد سے وہ اپنے مزموم مقاصد کے لیے ایسے مواد کا استعمال کر سکیں۔
دستاویز میں کہا گیا ہے کہ دو روزہ بین الاقوامی سربراہی اجلاس کے شرکا اِس عزم کا اظہار کرتے ہیں کہ جوہری سکیورٹی کے ہدف کو حاصل کرنا سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے