اس بڑے کھیل میں چین کا کردار
اس سلسلے کے پہلے اور دوسرے حصے میں ہم نے بھارت اور پاکستان کی دفاع اور سلامتی سے متعلق حکمت عملی کا جائزہ لیا۔ اس تیسرے حصے میں ہم اس بات کا جائزہ لیں گے کہ چین جنوبی ایشیا میں روایتی اور جوہری ہتھیاروں کی دوڑ کو کیسے دیکھ رہا ہے۔
یہ بات واضح ہے کہ بھارت کی دفاعی تیاریاں پاکستان کے علاوہ چین کو مد نظر رکھ کر کی جارہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت طویل فاصلے کے میزائلوں کی تیاری پر خصوصی توجہ دے رہا ہے۔ تاہم چین کی دفاعی اور حربی تیاریاں بھارت کو مد نظر رکھ کر نہیں بنائی جا رہیں۔ بھارت کو ہتھیاروں کے حصول کیلئے روس، امریکہ، فرانس ، جرمنی اور کئی دیگر ممالک پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ لہذا بھارت چونکہ مختلف ممالک سے مختلف نوعیت کے ہتھیار درآمد کرتا ہے، اُن کا معیار گھٹیا ہوتا ہے۔ علاوہ اذیں بھارت کی اپنی اسلحہ سازی بھی فرسودہ ہے۔ لہذا دفاعی تجزیہ کار اس بات پر متفق ہیں کہ بھارت کیلئے چین کی ہمسری کرنا محض ایک خواب ہی رہے گا کیونکہ چین کسی بھی قسم کا اسلحہ درآمد کرنے کے بجائے خود تیار کر رہا ہے جس کا معیار دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔
ماہرین اس بات پر بھی متفق ہیں کہ چین اس خطےکے ممالک کے ساتھ امریکہ کے دفاعی اشتراک کے بارے میں حساس رہا ہے۔ مثال کے طور پر جب بھارت نے امریکہ کے ساتھ ملکر دفاعی مشقیں کیں تو چین نے اس بارے میں مکمل خاموشی اختیار کی۔ یہ چین کی سیاسی بصیرت ہے کہ اُس نے کبھی ایسی صورت حال میں فوری رد عمل کا مظاہرہ نہیں کیا۔ چین کی طرف سے تواتر کے ساتھ جاری ہونے والے قرطاس ابیض میں بھی کبھی بھارت کا خصوصی طور پر ذکر نہیں دیکھا گیا۔ بھارت کا ذکر خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ محض چین کے ساتھ تعاون کے حوالے سے ہی کیا گیا۔ ان دستاویزات میں بھارت کی دفاعی تیاریوں کو یکسر نظر انداز کیا گیا ہے۔ چین نے کبھی بھی بھارت کی طرف سے خطرہ محسوس نہیں کیا۔ چین کو اس بات کا احساس ہے کہ بھارت دنیا میں بالعموم اور جنوبی ایشیا میں بالخصوص بڑے کردار کا متمنی ہے لیکن چین باور کرتا ہے کہ بھارت اندرونی طور پر خراب گورننس کی وجہ سے اس میں کامیاب نہیں ہو سکے گا۔
تاہم بھارتی افواج کو جدید تر اسلحہ سے لیس کرنے کی کوششوں میں امریکہ کی دلچسپی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ امریکہ بھارت کے حوالے سے چین کو کسی رد عمل پر مجبور کرنا چاہتا ہے۔ اب سے دو ماہ قبل اپریل میں صومالی قزاقوں سے ایک جہاز کو چھڑانے میں جب چین اور بھارت کی بحری افواج نے ایک دوسرے سے تعاون کیا تو چین نے اس واقعے کی خبر دیتے ہوئے بھارت کا قطعاً ذکر نہ کیا تو بہت سے لوگوں کو شدید حیرت ہوئی۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ چین نے ہمیشہ بھارت کو نظرانداز کرنے کی دانستہ کوشش کی ہے۔ یہ حقیقت کہ چین نے کبھی بھارت کے ساتھ اسلحے کو جدید بنانے میں محاذآرائی کا سہارا نہیں لیا ہے اور چین خود اپنی پالیسی کے مطابق جدید ترین ہتھیار بنانے کی پالیسی پر گامزن ہے، اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بھارت اور چین میں کبھی بھی ہتھیاروں کی دوڑ شروع نہیں ہو سکتی۔
جارج ٹاؤن یونیورسٹی کی پروفیسر اوریانا ماسٹرو کے مطابق آئیندہ برسوں میں امریکہ بھارت کو جدید ہتھیاروں کے حصول میں زیادہ تعاون فراہم کرنے کی کوشش کرے گا تا کہ چین کو محاذآرائی کی اس تکون میں گھسیٹا جائے۔ لیکن چین بھارت میں جدید ہتھیاروں کے حصول کو کوئی خاص اہمیت نہیں دیتا۔ مثال کے طور پر چین کے کلیدی روزناموں پیپلز ڈیلی اور گلوب میل میں چھپنے والے مضامین میں بھارت کی جدید آبدوزوں کا مذاق اُڑاتے ہوئے کہا گیا کہ بھارتی آبدوزوں کو کس قدر آسانی سے شناخت کیا جا سکتا ہے۔ یا پھر بھارت کے واحد طیارہ بردار جہاز کا ذکر کرتے ہوئے لکھا گیا کہ خطے میں موجود دیگر طیارہ بردار جہازوں کے مقابلے میں بھارتی طیارہ بردار جہاز محض ایک مذاق ہی ہے۔ ان مضامین میں بھارت کے جدید میزائیلوں کے حوالے سے کوئی ذکر ہی نہیں کیا گیا گویا چین کو اُن کے بارے میں کوئی پریشانی نہیں ہے۔ خاص طور بھارت کے براہموس میزائل جو خصوصی طور پر چین کو مدنظر رکھ کر تیار کیا گیا ہے، اس کے بارے میں بھی چینی حلقوں نے سرسری تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ اول تو یہ میزائل غیر مؤثر ہو گا کیونکہ اُس کے پاس C41SR نیٹ ورک موجود نہیں ہے جو اس میزائل کو مؤثر طور پر استعمال کرنے کیلئے ضروری ہے۔ دوسرے یہ کہ بھارت ایسے میزائل اسلئے تیار کر رہا ہے کیونکہ اُس کی لڑاکا فوجیں انتہائی کمزور ہیں اور اس کمزوری کو چھپانے کیلئے اسے براہموس جیسے میزائلوں کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔ علاوہ اذیں جب بھارت نے اگنی۔5 انٹرکانٹی نینٹل بیلسٹک میزائل کا چوتھی بار تجربہ کیا جو خاص طور پر چین کے ہر علاقے کو ہدف بنانے کیلئے تیار کیا گیا ہے تو چینی میڈیا نے کہا کہ اس میزائل کے استعمال سے پہلے ابھی بہت زیادہ جانچ پڑتال اور مشق کی ضرورت ہو گی۔ علاوہ اذیں اس کی رفتار انتہائی کم ہونے کے باعث یہ قابل اعتبار حد تک خطرے کا باعث نہیں ہو گا۔ چین سمجھتا ہے کہ بھارت میں حربی صلاحیت کو کسی مؤثر سطح تک لانے کیلئےکوششیں انتہائی ناکافی ہیں اور اس کی وجہ بھارت کے سیاسی نظام کی کمزوری اور گورنس کا فقدان ہے۔
لیکن مشرقی ایشیا کے پس منظر میں دیکھا جائے تو بھارت کا دفاعی بجٹ ویت نام اور فلپائن کے دفاعی بجٹ سے 10 گنا اور جاپان کے بجٹ سے 17 گنا زیادہ ہے۔ تاہم جب ویت نام یا فلپائن کوئی جدید ہتھیار حاصل کرتے ہیں تو چین کی طرف سے شدید رد عمل کا مظاہرہ کرتے ہوئےکہا جاتا ہے کہ اس سے چین کی سلامتی کو خطرہ درپیش ہو سکتا ہے۔ لیکن بھارت کی طرف سے کسی بھی قسم کے جدید اسلحے کے حصول پر چین بڑی حد تک خاموش رہتا ہے۔ پروفیسر اوریانا ماسٹرو کا کہنا ہے کہ چین کو بھارت کی طرف سے اگر کوئی پریشانی ہو سکتی ہے تو وہ امریکہ کے بھارت کے ساتھ بڑھتے ہوئے اسٹریٹجک تعلقات ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ امریکہ کی کوشش ہو گی کہ وہ چین کو اُس مقام پر لانے میں کامیاب ہو جس پر وہ بھارت کے ساتھ ہتھیاروں کی دوڑ کو اہمیت دینے لگے۔ اس سلسلے میں امریکہ بھارت کے ساتھ دفاعی تعلقات میں مسلسل اضافہ کرتے ہوئے اسے اُس سطح پر لیجا سکتا ہے جہاں چین امریکہ پر تنقید کرنا شروع کر دے اور یوں اس کے نتیجے میں وہ بھارت کو اہمیت دینے لگے۔
تاہم دفاعی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ بھارت میں اندرونی طور پر امریکہ کے ساتھ قریبی تعلق جاری رکھنے کی خواہش بھی خاصی کمزور ہے۔ یوں سوال یہ ہے کہ امریکہ اور بھارت میں قریبی تعلقات کی کوششوں اور چین اور پاکستان میں بڑھتے ہوئے اقتصادی اور فوجی تعلقات کے پیش نظر اصل فائدہ چاروں میں سے کس ملک کو پہنچ رہا ہے۔ زیادہ تر دفاعی ماہرین اس بات پر متفق ہیں حتمی فائدہ صرف چین کو ہی پہنچ رہا ہے۔ (جاری ہے)