امریکی محکمہٴ خارجہ نے بتایا ہے کہ شام کے اندازاً 2200 مہاجرین امریکہ میں آچکے ہیں، جن میں سے 77 فی صد خواتین اور بچے ہیں۔ اِن میں سے کچھ کی آمد نیویارک میں ہوئی۔
میئر بِل ڈی بلاسیو نے، جو نیویارک کو تارکین وطن کا ایک فخریہ شہر کہتے ہیں، کہا ہے کہ یہ شہر سختیوں اور جنگ و جدل سے تنگ آکر ملک چھوڑنے والوں پر اپنی دروازے بند نہیں کرے گا۔ اُنھوں نے نیویارک کے مسلمانوں کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بہت اہم اتحادی قرار دیا۔
ریمن ٹیلر نے نیویارک سے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ شامی مہاجرین کی قسمت کے حوالے سے امریکہ بھر میں ایک بحث چھڑی ہوئی ہے۔ تاہم، نیویاک سٹی، جو زندگی کے تمام شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے تارکینِ وطن کا گڑھ ہے، کمیونٹی کی تنظیمیں اقدامات اٹھا رہی ہیں تاکہ اُن کی سطح پر مہاجرین کا خیرمقدم کیا جائے۔
ریپبلیکن صدارتی امیدوار ٹیڈ کروز اور جیب بش نے امریکہ پر زور دیا ہے کہ وہ شام کے مسیحی مہاجرین کو قبول کرے، ناکہ مسلمانوں کو۔ ڈونالڈ ٹرمپ کہتے ہیں کہ وہ شامیوں کو قبول نہیں کریں گے، اور منتخب ہونے پر وہ مخصوص مساجد کی نگرانی کریں گے۔ ڈاکٹر احمد جابر نیو یارک کی عرب امریکی تنظیم، اور داؤد مسجد کے سربراہ ہیں۔ وہ اس قسم کی باتوں کو غیر آئینی قرار دیتے ہیں۔
بقول اُن کے، ’آپ کی یہ ہمت کیسے ہوئی کہ آپ مہاجرین کو خوش آمدید نہیں کہیں گے۔ آپ نے یہ جراٴت کیسے کی کہ لوگوں کے مذہب کی بنا پر باٹ دیا اور یہ کہا کہ ہم اُن کا خیرمقدم اس لیے نہیں کریں گے کہ وہ مسلمان ہیں‘۔
داؤد بروکلن کے مرکزی علاقے کے مکین ہیں۔ نیویارک کی یہ مسجد سنہ 1939 میں شہر کی پہلی مسجد کے طور پر تعمیر ہوئی۔ آج یہاں 270 مساجد ہیں۔ ڈاکٹر جابر نے کہا ہے کہ برادری یمن، مصر، فلسطین اور شام کے تارکین وطن پر مشتمل ہے، جو دوسروں کے علاوہ مسلمانوں اور مسیحیوں، دونوں ہی کو خوش آمدید کہتی ہے۔
بقول اُن کے، اپنے قرب و جوار میں بسنے والے سبھی خاندانوں سے ہمارے تعلقات ہیں، جو تارکین وطن کے آنے اور اُن کو ہمارے ہاں بسانے کے منتظر ہیں‘۔
ڈاکٹر جابر کی تنظیم سماجی خدمات فراہم کرتی ہے، جس میں انگریزی زبان سیکھنے میں مدد دینا، صحت کی دیکھ بھال اور بچوں کے لیے اسکول کے بعد تعلیم کی سہولت فراہم کرنا شامل ہیں۔
دیگر برادریوں کے گروپ باقی ضروریات پوری کرنے کے متمنی ہیں۔ ’انٹرنیشنل ریسکو کمیٹی‘ مہاجرین کے بچوں کو شہر میں بسنے میں مدد دینے کے لیےموسم گرما کے پروگرام کی سہولت فراہم کرتی ہے۔
حالیہ عام جائزہ رپورٹوں سے پتا چلتا ہے کہ بہت سارے امریکی یہ خیال کرتے ہیں کہ اُن کو چاہیئے کہ مزید مہاجرین کو قبول نہ کریں، جن میں متعدد لوگ سکیورٹی کے بارے میں خدشات کا اظہار کرتے ہیں۔