معروف دفاعی تجزیہ کار ڈاکٹر ظفر اقبال چیمہ نے کہا ہے کہ صدر براک اوباما کی جانب سے افغانستان میں موجود امریکی فوجوں کی تعداد میں کمی کے فیصلے سے امریکی پالیسیوں پر اعتماد میں اضافہ ہوگا، کیونکہ صدر اوباما نے جو وعدہ کیا اُسے پورا کر دکھایا۔
وہ، صدر اوباما کی تقریر پر تبصرہ کر رہے تھے جِس میں افغانستان سے فوجیوں کے مرحلہ وار انخلا کے تفصیل کا اعلان کیا گیا۔
جمعرات کو ’وائس آف امریکہ‘ سے بات چیت میں اُنھوں نے کہا کہ امریکی انتظامیہ کی طرف سے 2014ء تک افغانستان سے مکمل فوجی انخلا کے اعلان کے حوالے سے نئے اقدامات کا اعلان امریکی پالیسیوں پر اعتماد میں اضافہ لائے گا۔
بہت سے تجزیہ کاروں کے برعکس، ڈاکٹر ظفر اقبال چیمہ افغانستان میں مستقبل میں خانہ جنگی نہیں دیکھتے۔ اُن کا کہنا ہے کہ طالبان عسکریت پسند امریکہ کے ہاتھوں بھاری نقصان اُٹھا چکے ہیں اور ممکنہ طور پر سیاسی عمل کا حصہ بننے کو تیار نظر آتے ہیں۔
اُن کے الفاظ میں، ’پاکستان تو پہلے ہی کہہ رہا ہے کہ اُسے سیاسی عمل کا حصہ بنایا جائے، اور امریکہ کی طرف سے بھی ابتدائی آمادگی کی طرف نشاندہی کی جارہی ہے۔‘تاہم، وہ مانتے ہیں کہ افغانستان میں خانہ جنگی کے کسی بھی سطح پر امکان کے سدِ باب کے لیے بہتر سیاسی تدبیر کرنا ہوگی۔
اُن کے خیال میں صدر اوباما کی جانب سے افغانستان میں امریکی فوج کم کرنے کا اعلان پاکستان کے بھی مفاد میں ہے۔
ڈاکٹر چیمہ نے کہا کہ افغانستان، امریکہ، نیٹو اور پاکستان کی طرف سے فیصلے کرنے والوں کو مل کر ایک حکمتِ عملی تیار کرنی چاہیئے، ’ کہ امریکی فوجی انخلا کے بعد افغانستان میں کس طرح امن قائم ہوگا، ترقی کیسے ہوگی، کون کون سی پارٹیاں ہوں گی، فنڈز کہاں سے آئیں گے۔‘
افغان پارلیمان کے سابق ڈپٹی اسپیکر، میر ویس یاسینی کا کہنا تھا کہ صدر اوباما کا یہ اعلان پہلے سے متوقع تھا اور اُسے افغانستان کے اندر جاری صورتِ حال میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئے گی۔
یاسینی کا کہنا تھا کہ پہلے سے یہ طے ہوگیا تھا کہ جون 2011ء میں فوجی انخلا شروع ہوگا۔ اُن کے بقول، اِس اعلان سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔اُن کا کہنا تھا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ 2014ء تک افغان فورسز اپنے پاؤں پر کھڑی ہوجائیں گی۔
یاسینی نے کہا کہ افغانستان میں پائیدار امن کے لیے طالبان کو گفت و شنید کی میز پر لانا ہوگا، اور ’اگر طالبان سے بات چیت کامیاب نہیں ہوتی تو خانہ جنگی کا خطرہ باقی رہے گا۔‘
واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک ’امریکن فارین پالیسی انسٹی ٹیوٹ‘ میں رسرچ فیلو، جیف اسمتھ کا کہنا تھا کہ صدر اوباما کے فیصلے میں اندرونی سیاست کا زیادہ عنصر نہیں ہے، اور یہ کہ وہ ملکی فوجی قیادت اور یورپی اتحادیوں کی طرف سے افغانستان کی جنگ کے حوالے سے ملنے والے تاثرات کو سامنےرکھتے ہوئے فیصلے کرتے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد بظاہر یہ مطالبہ بڑھ گیا تھا کہ افغانستان میں مشن مکمل ہو چکا ہے اور فوجوں کی تیز رفتاری کا عمل شروع ہونا چاہیئے۔
جیف اسمتھ افغانستان کی فوجوں کی صلاحیت کے بارے میں بھی زیادہ پُراعتماد نہیں ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ اِس بارے میں اُن کو زیادہ توقعات نہیں ہیں۔ تاہم، مقامی فورسز بتدریج اپنی صلاحیت بہتر بنارہی ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ افغانستان کے اندرسیاسی عمل اہم ہوگا مگر اِس میں سب سے بڑی رکاوٹ طالبان کی یہ شرط ہے کہ مذاکرات سے قبل غیر ملکی فوجوں کا مکمل انخلا ہونا چاہیئے اور امریکہ کے لیے اِس شرط کو قبول کرنا آسان نہیں ہوگا۔
پاکستان کے سینئر صحافی اور تجزیہ کار نجم سیٹھی آج کل واشنگٹن میں ہیں۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اُنھوں نے کہا کہ امریکی فوجوں میں کمی افغان سرحد سے ملحق پاکستانی علاقوں میں نئے چیلنجز کا سبب بنے گی، خاص طور پر ایسے وقت میں جب پہلے ہی طالبان عسکریت پسندوں کی جانب سے اِن علاقوں میں گروہوں کی صورت میں داخل ہو کر سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنانے کی اطلاعات مل رہی ہیں۔
صدر اوباما کے اِس بیان پر کہ وہ خطے میں امن کے حصول کے لیے پاکستان پر دباؤ برقرار رکھیں گے کہ وہ اپنے تعاون اور کردار کا دائرہ وسیع کرے۔ نجم سیٹھی نے کہا کہ یہ صورتِ حال پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کرسکتی ہے، کیونکہ اگر فوج تعاون کرتی ہے تو ملک کے اندر سے لوگ سوالات اٹھائیں گے کہ یہ تعاون کس قیمت پر ہو رہا ہے۔
اگر واشنگٹن سے تعاون نہیں کیا جاتا تو خدشہ ہے کہ وہ ایبٹ آباد نوعیت کی کارروائی از خود کرنے کو ترجیح دے گا جو دونوں ملکوں کے لیے سود مند نہ ہوگا۔
اُنھوں نے کہا کہ اِن حالات میں ضروری ہے کہ پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت، بشمول حزبِ اختلاف کے ، اِس اہم قومی معاملے پر اتفاق ِ رائے پیدا کرے اور ملکی میڈیا عوامی سطح پر اتفاقِ رائے پیدا کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔