جن افراد پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں ان میں روس کے صدر ولادی میر پیوٹن کے دو اعلیٰ مشیر اور یوکرین کے روس نواز برطرف صدر وکٹر یونوکووچ بھی شامل ہیں۔
واشنگٹن —
امریکہ نے روس کی یوکرین میں فوجی مداخلت اور نیم خود مختار یوکرینی علاقے کرائمیا کے روس کے ساتھ الحاق میں سرگرم کردار ادا کرنے والے افراد کے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔
پیر کو 'وہائٹ ہاؤس' میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدر براک اوباما نے اعلان کیا کہ انہوں نے اپنی حکومت کو یوکرین اور روس کے ان 11 شہریوں کے اثاثے منجمد کرنے کا حکم دیا ہے جنہیں امریکہ، صدر اوباما کے بقول، یوکرین کے سیاسی بحران کا ذمہ دار سمجھتا ہے۔
جن افراد پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں ان میں روس کے صدر ولادی میر پیوٹن کے دو اعلیٰ مشیر اور یوکرین کے روس نواز برطرف صدر وکٹر یونوکووچ بھی شامل ہیں۔
پریس کانفرنس سے قبل امریکی صدر کی جانب سے جاری کیے جانے والے ایک حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ روس کی پالیسیوں اور اقدامات کے نتیجے میں یوکرین کے جمہوری حقوق اور ادارے متاثر ہورہے ہیں اور اس کا امن، سلامتی، استحکام، خودمختاری اور سالمیت کو خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔
حکم نامے میں صدر اوباما نے کہا ہے کہ روس کے یوکرین کے خلاف اقدامات کے نتیجے میں امریکہ کی قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی بھی ایک انتہائی اور غیر معمولی خطرے سے دوچار ہوگئی ہے جس سےا مریکی حکومت صرفِ نظر نہیں کرسکتی۔
بیان میں امریکی صدر نے خبردار کیا ہے کہ اگر روس نے خطے میں جاری کشیدگی میں مزید اضافہ کیا تو ضرورت پڑنے پر امریکہ اس کےخلاف مزید پابندیاں عائد کرنے سے بھی دریغ نہیں کرے گا۔
بعد ازاں 'وہائٹ ہاؤس' میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے صدر اوباما نے یوکرین کے لیے امریکہ کی "غیر متزلزل" حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک اور عالمی برادری کرائمیا میں ہونے والے ریفرنڈم کے نتائج تسلیم نہیں کرتے۔
خیال رہے کہ کرائمیا میں اتوار کو ہونے والے ریفرنڈم میں 97 فی صد رائے دہندگان نے روس کے ساتھ الحاق کے حق میں ووٹ دیا تھا جس کے بعد پیر کو کرائمیا کی پارلیمان نے یوکرین سے آزادی کا اعلان کرتے ہوئے ماسکو حکومت سے الحاق کی باقاعدہ درخواست کردی تھی۔
پریس کانفرنس کے دوران صدر اوباما نے صحافیوں کو بتایا کہ امریکہ کے نائب صدر جو بائیڈن پیر کی شب یورپ روانہ ہورہے ہیں جہاں وہ یوکرین کی صورتِ حال پر امریکہ کے 'نیٹو' اتحادیوں کے ساتھ تبادلۂ خیال کریں گے۔ صدر اوباما نے بتایا کہ وہ خود بھی آئندہ ہفتے یورپی ممالک کا دورہ کریں گے۔
جن افراد پر امریکہ نے اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا ہے ان میں روسی پارلیمان کے ایوانِ بالا کی اسپیکر ولنٹینا میٹ وینکو بھی شامل ہیں جو کرائمیا کے روس کے ساتھ الحاق کی حمایت کر رہی ہیں۔
محترمہ میٹ وینکو نے اپنے ردِ عمل میں امریکی پابندیوں کو مسترد کرتے ہوئے انہیں "سیاسی بلیک میلنگ" قرار دیا ہے۔
دریں اثنا یورپی یونین کے 28 رکن ممالک نے بھی یوکرین بحران میں اہم کردار ادا کرنے والے 21 روسی اور یوکرینی شخصیات پر سفری اور اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
پیر کو برسلز میں یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کے تین گھنٹوں تک جاری رہنےو الے اجلاس کے بعد لتھوانیا کے وزیرِ خارجہ نے صحافیوں کو بتایا کہ کرائمیا کے روس کے ساتھ الحاق کے معاملے میں سرگرم کردار ادا کرنے والے 21 افراد پر سفری پابندیاں عائد کرنے اور ان کے اثاثے منجمد کرنے پر اتفاق ہوگیا ہے جس کا اعلان جلد کردیا جائے گا۔
ادھر برطانیہ کے وزیرِ خارجہ ولیم ہیگ نے کہا ہے کہ یوکرین میں روسی مداخلت کے ردِ عمل میں یورپی یونین نے روس سے گیس کی درآمد کم کرنے پر غور شروع کردیا ہے۔
پیر کو ایک ٹی وی انٹرویو میں ولیم ہیگ نے کہا کہ یورپی یونین کی پابندیوں کا نشانہ بننے والے 21 روسی اور یوکرینی افراد کی فہرست میں ضرورت پڑنے پر مزید نام بھی شامل کیے جاسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مستقبل میں مزید پابندیوں کا انحصار اس بات پر ہے کہ روس کرائمیا کی جانب سے الحاق کی درخواست پر کیا فیصلہ کرتا ہے۔
یورپی ممالک اور امریکہ کے دفاعی اتحاد 'نیٹو' نے بھی پیر کو ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کرائمیا میں اتوار کو ہونے والے ریفرنڈم کو یوکرین اور بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اس کے نتائج تسلیم نہ کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔
تاہم مغربی ممالک کے احتجاج اور تنقید کے باوجود ایک اہم روسی رہنما نے عندیہ دیا ہے کہ روسی پارلیمان کرائمیا کی جانب سے کی جانے والی الحاق کی درخواست پر ضابطے کی کاروائی کا جلد آغاز کرے گی۔
خبر رساں ایجنسی 'انٹر فیکس' کے مطابق روسی پارلیمان کے ایوانِ زیریں 'اسٹیٹ ڈوما' کے ڈپٹی اسپیکر سرجئی نیویروف نے کہا ہے کہ کرائمیا میں ہونے والے ریفرنڈم کے نتائج سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ خطے کے عوام کو اپنا مستقبل صرف روس کے ساتھ ہی نظر آرہا ہے۔
پیر کو 'وہائٹ ہاؤس' میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدر براک اوباما نے اعلان کیا کہ انہوں نے اپنی حکومت کو یوکرین اور روس کے ان 11 شہریوں کے اثاثے منجمد کرنے کا حکم دیا ہے جنہیں امریکہ، صدر اوباما کے بقول، یوکرین کے سیاسی بحران کا ذمہ دار سمجھتا ہے۔
جن افراد پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں ان میں روس کے صدر ولادی میر پیوٹن کے دو اعلیٰ مشیر اور یوکرین کے روس نواز برطرف صدر وکٹر یونوکووچ بھی شامل ہیں۔
پریس کانفرنس سے قبل امریکی صدر کی جانب سے جاری کیے جانے والے ایک حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ روس کی پالیسیوں اور اقدامات کے نتیجے میں یوکرین کے جمہوری حقوق اور ادارے متاثر ہورہے ہیں اور اس کا امن، سلامتی، استحکام، خودمختاری اور سالمیت کو خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔
حکم نامے میں صدر اوباما نے کہا ہے کہ روس کے یوکرین کے خلاف اقدامات کے نتیجے میں امریکہ کی قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی بھی ایک انتہائی اور غیر معمولی خطرے سے دوچار ہوگئی ہے جس سےا مریکی حکومت صرفِ نظر نہیں کرسکتی۔
بیان میں امریکی صدر نے خبردار کیا ہے کہ اگر روس نے خطے میں جاری کشیدگی میں مزید اضافہ کیا تو ضرورت پڑنے پر امریکہ اس کےخلاف مزید پابندیاں عائد کرنے سے بھی دریغ نہیں کرے گا۔
بعد ازاں 'وہائٹ ہاؤس' میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے صدر اوباما نے یوکرین کے لیے امریکہ کی "غیر متزلزل" حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک اور عالمی برادری کرائمیا میں ہونے والے ریفرنڈم کے نتائج تسلیم نہیں کرتے۔
خیال رہے کہ کرائمیا میں اتوار کو ہونے والے ریفرنڈم میں 97 فی صد رائے دہندگان نے روس کے ساتھ الحاق کے حق میں ووٹ دیا تھا جس کے بعد پیر کو کرائمیا کی پارلیمان نے یوکرین سے آزادی کا اعلان کرتے ہوئے ماسکو حکومت سے الحاق کی باقاعدہ درخواست کردی تھی۔
پریس کانفرنس کے دوران صدر اوباما نے صحافیوں کو بتایا کہ امریکہ کے نائب صدر جو بائیڈن پیر کی شب یورپ روانہ ہورہے ہیں جہاں وہ یوکرین کی صورتِ حال پر امریکہ کے 'نیٹو' اتحادیوں کے ساتھ تبادلۂ خیال کریں گے۔ صدر اوباما نے بتایا کہ وہ خود بھی آئندہ ہفتے یورپی ممالک کا دورہ کریں گے۔
جن افراد پر امریکہ نے اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا ہے ان میں روسی پارلیمان کے ایوانِ بالا کی اسپیکر ولنٹینا میٹ وینکو بھی شامل ہیں جو کرائمیا کے روس کے ساتھ الحاق کی حمایت کر رہی ہیں۔
محترمہ میٹ وینکو نے اپنے ردِ عمل میں امریکی پابندیوں کو مسترد کرتے ہوئے انہیں "سیاسی بلیک میلنگ" قرار دیا ہے۔
دریں اثنا یورپی یونین کے 28 رکن ممالک نے بھی یوکرین بحران میں اہم کردار ادا کرنے والے 21 روسی اور یوکرینی شخصیات پر سفری اور اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
پیر کو برسلز میں یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کے تین گھنٹوں تک جاری رہنےو الے اجلاس کے بعد لتھوانیا کے وزیرِ خارجہ نے صحافیوں کو بتایا کہ کرائمیا کے روس کے ساتھ الحاق کے معاملے میں سرگرم کردار ادا کرنے والے 21 افراد پر سفری پابندیاں عائد کرنے اور ان کے اثاثے منجمد کرنے پر اتفاق ہوگیا ہے جس کا اعلان جلد کردیا جائے گا۔
ادھر برطانیہ کے وزیرِ خارجہ ولیم ہیگ نے کہا ہے کہ یوکرین میں روسی مداخلت کے ردِ عمل میں یورپی یونین نے روس سے گیس کی درآمد کم کرنے پر غور شروع کردیا ہے۔
پیر کو ایک ٹی وی انٹرویو میں ولیم ہیگ نے کہا کہ یورپی یونین کی پابندیوں کا نشانہ بننے والے 21 روسی اور یوکرینی افراد کی فہرست میں ضرورت پڑنے پر مزید نام بھی شامل کیے جاسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مستقبل میں مزید پابندیوں کا انحصار اس بات پر ہے کہ روس کرائمیا کی جانب سے الحاق کی درخواست پر کیا فیصلہ کرتا ہے۔
یورپی ممالک اور امریکہ کے دفاعی اتحاد 'نیٹو' نے بھی پیر کو ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کرائمیا میں اتوار کو ہونے والے ریفرنڈم کو یوکرین اور بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اس کے نتائج تسلیم نہ کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔
تاہم مغربی ممالک کے احتجاج اور تنقید کے باوجود ایک اہم روسی رہنما نے عندیہ دیا ہے کہ روسی پارلیمان کرائمیا کی جانب سے کی جانے والی الحاق کی درخواست پر ضابطے کی کاروائی کا جلد آغاز کرے گی۔
خبر رساں ایجنسی 'انٹر فیکس' کے مطابق روسی پارلیمان کے ایوانِ زیریں 'اسٹیٹ ڈوما' کے ڈپٹی اسپیکر سرجئی نیویروف نے کہا ہے کہ کرائمیا میں ہونے والے ریفرنڈم کے نتائج سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ خطے کے عوام کو اپنا مستقبل صرف روس کے ساتھ ہی نظر آرہا ہے۔