2008ء کے مقابلے میں عرب دنیا میں انسانی حقوق کی حالت اور زیادہ خراب ہوگئی ۔یہ وہ نتیجہ ہے جو Cairo Institute for Human Rights Studies نے ایک نئے سروے میں اخذ کیا ہے۔ 12 عرب ملکوں کے تفصیلی جائزے میں اس رپورٹ میں گذشتہ سال کے واقعا ت کا حوالہ دیا گیا ہے جن کے نتیجے میں انسانی حقوق کی حالت اور ابتر ہو گئی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومتوں نے، خاص طور سے مصر میں، دیدہ دلیری سے اختلاف رائے کو کچلا ہے، ناقدین اور سیاسی مخالفین کو قانونی جواز کے بغیر جیلوں میں ڈالا ہے اور دہشت گردی کے خلاف انتہائی سخت قوانین بنائےہیں۔
قاہرہ انسٹی ٹیوٹ کے جنرل ڈائریکٹر، بہی الدین حسن کہتے ہیں کہ مصر میں صحیح معنوںمیں جمہوری اصلاحات کے لیے امریکی حمایت پورے علاقے میں اصلاحات کا نمونہ بن سکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اوباما انتظامیہ کے تحت امریکہ کے پاس اخلاقی اختیار ہے اور اسے اس اختیار کو صحیح طریقے سے استعمال کرنا چاہیئے اور یہ نہیں سوچنا چاہیئے کہ امریکہ کو اپنے سکیورٹی کے مفادات اورانسانی حقوق کے فروغ دونوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے۔
حسن کہتے ہیں کہ مسلمان دنیا میں بہت سے لوگ یہ سوچنے لگے ہیں کہ کیا امریکہ کبھی صدر اوباما کے آگے بڑھنے کے نئے تصور کو عملی جامہ پہنائے گا۔ فروری میں، امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے امریکہ اور مسلمان دنیا کے دوسرے فورم میں، اپنی تقریر میں اس مسئلے پر توجہ دی۔ انھوں نے کہا کہ’’جو لوگ جمہوریت کی بنیاد رکھ رہے ہیں، ہم نے ان کی حمایت کی ہے اور آئندہ بھی ایسا ہی کریں گے۔ شفاف اور قابلِ اعتماد ادارے، قانون کی حکمرانی، جاندار سول معاشرہ جو حکومت کی زیادتیوں، اور معاشرے کے ان بے اختیار اور بے بس طبقوں کونمایاں کرتا ہے، یہ سب جمہوریت کی بنیاد ہیں۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی چیز باہرسے مسلط نہیں کی جا سکتی۔ یہ سب چیزیں بتدریج شہریوں کو خود لانا ہوں گی‘‘۔
لیکن قاہرہ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائیریکٹر نے شبہے کا اظہار کیا ہے کہ شہری، خاص طور سے خلیج کے علاقے کی ناکام ریاستوں میں، ان معاملات میں خود کچھ کر سکیں گے۔ مسٹرحسن کہتے ہیں کہ یمن ایسے ملک کی مثال ہے جہاں امریکی امداد میں خاصا اضافہ ہوا ہے، لیکن انسانی حقوق کی حالت اور زیادہ خراب ہو گئی ہے۔ ان کے مطابق’’مطلق العنان حکومتوں کو امریکی حمایت سے صرف انسانی حقوق کی حالت خراب نہیں ہوتی بلکہ اس سے امریکہ کی ساکھ کو بھی سخت نقصان پہنچتا ہے اورعام لوگوں میں اس قسم کی ظالمانہ حکومتوں کے خلاف، جنھیں امریکی انتظامیہ کی حمایت حاصل ہوتی ہے، دہشت گردوں کی مدد کا جذبہ پیدا کرتا ہے‘‘۔
قاہرہ انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ میں امریکہ پر زور دیا گیا ہے کہ وہ علاقے میں مقامی جمہوری کرداروں کی کُھل کر اور طویل عرصے تک مدد کرنے کا وعدہ کرے تا کہ وہ اپنے مقاصد حاصل کر سکیں۔ Carnegie Endowment for International Peace کے نیتھن براؤن کہتے ہیں کہ امریکہ کی مشرق وسطیٰ پالیسی میں، اب تک اس قسم کے عزم کا فقدان رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’مجھے یقین نہیں کہ عرب دنیا میں جمہوریت قائم کرنا امریکہ کے اختیار میں ہے یا نہیں، لیکن جمہوریت کے فروغ کو کسی نہ کسی طرح امریکی پالیسی سے مربوط کرنا چاہیئے۔ ضروری نہیں کہ جمہوریت کو اس پالیسی میں مرکزی حیثیت حاصل ہو، لیکن علاقے میں اسے امریکی پالیسی کا ایک ضروری جزو ہونا چاہیئے‘‘ ۔
براون یہ بھی کہتے ہیں کہ علاقے میں جمہوریت کے فروغ کی کوششوں میں امریکہ کو ہرملک کی سماجی اوراقتصادی سطح کو مدِ نظر رکھنا ہو گا۔ امریکی عہدے داروں کو اصرار ہے کہ اپنا عہدہ سنبھالنے کےبعد گذشتہ ایک سال سے کچھ زیادہ عرصے کے دوران، اوباماانتظامیہ نے عرب دنیا میں جمہوریت اور انسانی حقوق کے فروغ میں، اسی طریقے کو مدنظر رکھا ہے۔ مشرق قریب کے امور کے لیے امریکی محکمہ ٴخارجہ کی ڈپٹی اسسٹنٹ سکریٹری، ٹاما وٹس نے حال ہی میں چار عرب ملکوں کا دورہ کیا تا کہ ان کے سول معاشرے کی ضرورتوں کا اندازہ لگایا جائے۔
وہ کہتی ہیں کہ اوباماانتظامیہ نے نہ صرف ان عرب حکومتوں کے ساتھ جنھوں نے اصلاحات کا عزم کیا ہے، بلکہ جمہوری اصلاحات کی جد و جہد کرنے والے کارکنوں کے ساتھ بھی مسلسل بات چیت جاری رکھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ’’ہم سول معاشرے، سیاسی پارٹیوں، امیدواروں اور سیاست دانوں کے ساتھ مسلسل رابطہ قائم رکھتے ہیں۔ ہم تربیت اور امداد فراہم کرتے ہیں اور سرکاری اور غیر سرکاری سطحوں پر، جمہوری اصلاحات کو آگے بڑھانے کے لیے مسلسل بات چیت کرتے رہتے ہیں‘‘۔
ان کا کہنا ہےکہ قاہرہ کے حالیہ دورے میں انھوں نے کھل کر جمہوریت اور انسانی حقوق کے کارکنوں سے ملاقاتیں کی تھیں اور مصر میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں ان کے رول پر تبادلہٴ خیال کیا تھا۔