اقوام متحدہ کے توسط سے پیرس میں شروع ہونے والے موسمیاتی تبدیلی کے عالمی اجلاس میں امریکی صدر براک اوباما نے عالمی رہنماؤں پر زور دیا ہے کہ وہ ’موقع سے فائدہ اٹھائیں‘۔ اُنھوں نے پیر کے روز کہا کہ اُن کی کوششوں کو ’مشکلات سے چھٹکارے اور کرہٴ ارض کے تحفظ‘ کی روشنی میں پرکھا جائے گا۔
صدر اوباما نے کہا ہے کہ دنیا ایندھن کے روایتی وسائل کے استعمال کے نتیجے میں پیدا ہونے والے گیسوں کے اخراج اور عالمی درجہٴ حرارت میں اضافے میں کمی لانے کی فوری ضرورت پر توجہ دینے کی ذمہ داری کا بخوبی احساس رکھتی ہے۔
صدر اوباما نے کہا کہ اُنھوں نے الاسکا جا کر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا بالمشافیٰ مشاہدہ کیا ہے، جہاں گلیشئر پگھل رہے ہیں، ساحلوں پر لہروں کا زور ہے اور دیہات سمندری پانی تلے آتے جا رہے ہیں۔
اہم عالمی اجلاس میں شریک رہنما درجہٴ حرارت میں کمی لانے کے لیے صنعتی دور سے قبل کے درجہ حرارت کی سطح، یعنی موجودہ سطح سے دو درجے کم پر لانے کے ہدف کے حصول کو سامنے رکھے ہوئے ہیں۔
اس سے قبل موصولہ رپورٹ کے مطابق، ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے کے لیے عالمی سطح پر ایک نئی حکمت عملی پر اتفاق رائے کے لیے پیر 30 نومبر سے فرانس کے دارالحکومت پیرس میں عالمی سربراہ کانفرنس کا آغاز ہوا۔
اقوام متحدہ کی طرف سے منعقدہ اس عالمی سربراہ کانفرنس کو ’COP21‘ کا نام دیا ہے جس میں 150 سے ممالک کے رہنماؤں نے شرکت کی۔
امریکہ کے صدر براک اوباما ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق ہونے والی اقوام متحدہ کی کانفرنس میں شرکت کے لیے پیرس میں ہیں۔ اُنھوں نے اس موقع پر اپنی چینی منصب سے بھی ملاقات کی۔
اس سے قبل اپنے فرانسیسی ہم منصب فرانسواں اولاںد کے ہمراہ صدر اوباما بتاکلاں گئے اور وہاں رواں ماہ دہشت گرد حملے کا نشانہ بننے والوں کی یاد میں پھول رکھتے ہوئے انھیں خراج عقیدت پیش کیا۔ وہ اس موقع خیالات کا اظہار کرنے کی بجائے کچھ دیر خاموش کھڑے رہے۔
13 نومبر کو پیرس کے مختلف حصوں میں ہونے والے دہشت گرد حملوں میں 130 افراد ہلاک اور 300 سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔
ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق اہم اجلاس میں شرکت سے قبل سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر صدر اوباما نے ایک بیان میں کہا کہ " اس اجتماع کو جو چیز منفرد بناتی ہے وہ یہ کہ 180 سے زائد اقوام پہلے ہی ان مضر گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کے لیے اپنے منصوبے فراہم کر چکی ہیں جو ماحولیاتی تبدیلی کا باعث بنتی ہیں۔ اور امریکہ کی قیادت اس میں پیش رفت کرنے میں معاونت کر رہی ہے۔"
انھوں نے اس کانفرنس سے متعلق اہداف کے حصول کے بارے میں امید کا اظہار کیا۔
یہ کانفرنس دو ہفتوں تک جاری رہے گی جس میں 195 ملکوں کے مذاکرات کار شریک ہو رہے ہیں۔
امریکہ کی قومی سلامتی کونسل کے سینیئر ڈائریکٹر برائے توانائی و ماحولیاتی تبدیلی پاول بوڈنر کہتے ہیں کہ " ہم جانتے تھے کہ ایک نئی حکمت عملی کی ضرورت ہے جس پر تمام اقوام انحصار کریں۔"
اس کانفرنس کا مقصد عالمی حدت "گلوبل وارمنگ" کو دو درجہ سینٹی گریڈ تک یا اس سے کم تک محدود رکھنے کے لیے اقدام کرنا ہے۔
عہدیداروں کے مطابق تقریباً 170 ممالک ایسے ہیں جو زہریلی گیسوں کے کل اخراج کے 90 فیصد کے ذمہ دار ہیں۔ ان میں بڑا حصہ بڑے صنعتی ملکوں کا ہے۔
پیر کو صدر براک اوباما دنیا کے ایسے ہی دو بڑے ملکوں سے سربراہان سے ملاقات کریں گے جن میں چین کے صدر شی جنپنگ اور بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی شامل ہیں۔