امریکہ کے صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ انھیں کوبانی کے بارے میں "سخت تشویش" ہے۔ شام کے اس اہم سرحدی علاقے کو شدت پسند دولت اسلامیہ کے قبضے میں جانے سے روکنے کے لیے کرد ملیشیا لڑائی میں مصروف ہیں۔
واشنگٹن کے قریب امریکی فضائی اڈے پر 20 سے زائد غیر ملکی فوجوں کے سربراہوں کے اجلاس میں شدت پسندوں کے خلاف لڑائی پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
اجلاس میں صدر اوباما کا کہنا تھا کہ کوبانی کی صورتحال شام اور عراق کو لاحق دولت اسلامیہ کے خطرے کی عکاسی کرتی ہے۔
امریکی صدر نے زور دیتے ہوئے کہا کہ دولت اسلامیہ کو شکست دینا صرف ایک فوجی کارروائی نہیں۔۔۔ یہ لڑائی انتہا پسندی کے خلاف بھی ہے۔
اجلاس میں مشرق وسطیٰ، یورپ اور آسٹریلیا سمیت متعدد ملکوں کے فوجی حکام شریک تھے۔
صدر اوباما نے صحافیوں کو بتایا کہ شدت پسند گروپ کو تباہ و برباد کرنے کی کوششوں کے لیے اتحاد میں 60 ممالک شامل ہیں لیکن ان کے بقول یہ "صرف ایک سادہ سی فوجی مہم نہیں۔"
"یہ کوئی روایتی فوج نہیں ہے جسے ہم میدان جنگ میں شکست دیں اور پھر بالآخر ہتھیار پھینک دیں۔ ہم انتہا پسندی کے اس نظریے کے خلاف بھی لڑ رہے ہیں جس نے خطے کے مختلف حصوں میں اپنی جڑیں گاڑ لی ہیں۔"
ان کا کہنا تھا کہ فرقہ واریت، سیاسی تقسیم اور اقتصادی محرومی ایسی دیرینہ وجوہات ہیں جنہوں نے دولت اسلامیہ کا ساتھ دینے کے لیے ہتھیار اٹھانے والوں کو جواز فراہم کیا۔
صدر نے کہا کہ بین الاقوامی برادری کو خطے کے نوجوانوں کے لیے متبادل نظریہ فراہم کرنا ہو گا۔
ادھر امریکہ کی زیر قیادت دولت اسلامیہ کے اہداف کے خلاف فضائی کارروائیاں جاری ہیں اور رواں ہفتے شام میں ایسی 22 کارروائیاں کی گئیں۔
امریکی سنٹرل کمانڈ کے مطابق کوبانی کے قریب کی گئی ان کارروائیوں کی وجہ سے شدت پسندوں کی پیش قدمی سست ہوئی ہے۔