صدر براک اوباما تین ریاستوں کے بذریعہ بس کیے گئے دورے کے آخری مرحلے میں بدھ کو اپنی آبائی ریاست ایلینوئے پہنچیں گے۔
صدر اوباما ایلینوئے میں دوٹاؤن ہال اجلاسوں میں شرکت کریں گے۔ امکان ہے کہ منی سوٹا اور آئیووا میں کیے گئے خطابات کی طرح ایلینوئے میں بھی صدر کے خطابات کا ایک اہم موضوع 'روزگار کے نئے مواقع' رہے گا۔
صدر اوباما وسط مغربی ریاستوں کے اپنے اس تین روزہ دورے کو ری پبلکن کے ان الزامات کا تاثر دور کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں کہ صدر نے بے روزگاری سے نمٹنے اور امریکہ کی بیمار معیشت کو اپنے قدموں پر کھڑا کرنے کے لیے کچھ زیادہ نہیں کیا۔
ری پبلکنز نے صدر کے اس دورے کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور 'ری پبلکن نیشنل کمیٹی' کے چیئرمین نے اسے ٹیکس دہندگان کے پیسوں پر کیا جانے والا "انتخابی دورہ" قرار دیا ہے۔
اس سے قبل گزشتہ روز آئیووا میں ایک دیہی معاشی فورم سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر نے کچھ اراکینِ کانگریس پر الزام عائد کیا تھا کہ ان کی نظریں امریکی عوام کو مدد فراہم کرنے کے لیے قانون کی منظوری کے بجائے آئندہ برس کے انتخابات پر لگی ہوئی ہیں۔
صدر نے کہا تھا کہ قانون سازوں کو تنخواہ دار طبقے پر عائد محصولات میں کمی اور سڑکوں کی تعمیر کے لیے مزید فنڈز کی منظوری جیسے اقدامات اٹھانے چاہئیں۔
اپنے خطاب میں بظاہر رجعت پسند 'ٹی پارٹی تحریک' کی طرف اشارہ کرتے ہوئے صدر اوباما کا کہنا تھا کہ "کانگریس کا ایک طبقہ" امریکی معیشت کی بحالی میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔
صدر اوباما بدھ کی شب واپس واشنگٹن پہنچ جائیں گے جہاں وہ موسمِ گرما کا بیشتر حصہ ڈیمو کریٹس اور ری پبلکنز کے درمیان جاری قومی قرضہ کی حد میں اضافہ سے متعلق حالیہ تنازع کی نذر کر چکے ہیں۔
ادھر رکن ایوانِ نمائندگان میچیل باکمان اور ٹیکساس کے گورنر رِک پیری سمیت ری پبلکن جماعت کے کئی دیگر ممکنہ صدارتی امیدواران بھی رواں ہفتے انتخابی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔
رِک پیری نے منگل کو آئیووا میں کاروباری شخصیات کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ صدر اوباما کا طریقہ کار یہ ہے کہ وہ معاملات کا مطالعہ کرتے ہیں، حالاں کہ ان کے بقول مسئلہ پہلے ہی سے جانا پہچانا ہے اور وہ یہ ہے کہ امریکی "ٹیکسوں اور انتظامی و قانونی پابندیوں میں جکڑے ہوئے ہیں"۔
صدر کا حالیہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہورہا ہے جب امریکہ میں بے روزگاری کی شرح 9 فی صد سے زائد کی سطح کو چھو رہی ہے اور ایک نئے سروے میں روزگار کے حوالے سے امریکی عوام میں صدر کی مقبولیت 39 فی صد بتائی گئی ہے۔ رائے عامہ کے دیگر جائزوں میں کانگریس کی مقبولیت صدر سے کہیں کم ہے۔