امریکی صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنا ’معاشی اور سکیورٹی کے لیے ناگزیر ہے‘، جسے فوری طور پر طے کیا جانا ضروری ہے۔
صدر اوباما نے یہ بات منگل کو پیرس میں اقوام متحدہ کے توسط سے منعقدہ موسمیاتی تبدیلی کے اجلاس کی عمارت کے باہر اخباری نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہی، جہاں سربراہان مملکت و حکومت عالمی درجہ حرارت کو دو درجے سینٹی گریڈ نیچے لانے کی جستجو کی غرض سے اقدامات سے اتفاق کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہیں؛ تاکہ درجہ حرارت کو صنعتی دور سے قبل کی سطح پر لانے کے ہدف کو پورا کیا جاسکے۔
بقول صدر اوباما، ’جس رفتار سے دنیا میں تپش کا عنصر بڑھتا جا رہا ہے، اگر ہم نے کچھ نہ کیا تو سمندری سطح اسی تیزی سے بڑھتی جائے گی، موسمیاتی سلسلہ مختلف غیرمتوقع طریقوں سے اثرانداز ہوگا؛ اگر ہم نے افراد کی استعداد بڑھانے کے مواقع کی جگہ معاشی اور عسکری وسائل پر زیادہ توجہ برقرار رکھی، تو ہاتھوں سے وقت نکل سکتا ہے، جب کہ کرہ ارض میں آنے والی قدرتی تبدیلیوں پر دھیان مرکوز کرنا لازم ہے‘۔
امریکی صدر نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی وسیع تر نوعیت کی ہے، اگر کچھ نہ کیا گیا تو نسلوں کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ بقول اُن کے، ’مشکل معاملہ یہ ہے کہ کوئی بھی سیاسی نظام اس سے اپنے طور پر نبردآزما نہیں ہوسکتا‘، کیونکہ اس کے اثرات مرحلہ وار نوعیت کے ہیں، جنھیں آسانی کے ساتھ گھٹایا نہیں جا سکتا، یہاں تک کہ اکثر اِن کا اندازہ لگانا اتنا سہل نہیں ہوتا۔
تاہم، اوباما نے اس اعتماد کا اظہار کیا کہ موسمیاتی تبدیلی کے حل کا اقدام کیا جا سکتا ہے، جس کے لیے عالمی رہنماؤں کو دو ہفتے کے پیرس مذاکرات ختم ہونے سے قبل، موسمیات کا ایک معاہدہ طے کرنا ہوگا، جس پر عمل درآمد قانونی طور پر سب کی ذمہ داری ہوگی، جس کے لیے گیس کے اخراج کی کمی کے اہداف کو پورا کرنا پڑے گا۔
بقول اُن کے، ’ہمیں اس بات کا یقین ہے کہ مل بیٹھ کر یہاں بہت کچھ کیا جاسکتا ہے۔ ذرا سوچیئے، کیا کسی کو توقع تھی کہ تمام 180 ممالک پیرس آکر اس دلجمعی کے ساتھ درپیش سنجیدہ موسمیاتی اہداف پر ذہن مرکوز کریں گے‘۔
دو روز کے قیام کے بعد وہ آج واشنگٹن واپس روانہ ہوئے۔