امریکہ کے صدر براک اوباما نے ہفتے کو داعش کی طرف سے یرغمال بنائے گئے جاپانی مغوی کے"سفاکانہ قتل" کی سخت مذمت کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ واشنگٹن اور اس کے اتحادی اس فعل کا ارتکاب کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں گے۔
اوباما کی طرف سے یہ بیان اس ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد سامنے آیا جس میں مغوی جاپانی صحافی کینجی گوٹو کو ایک تصویر کے ساتھ دکھایا گیا جس میں بظاہر ہارونا یوکاوا دکھائی دیتے ہیں جن کا سر قلم کر دیا گیا۔
شدت پسند گروپ داعش جو شام اور عراق کے ایک تہائی حصے پر قابض ہے، نے منگل کو دھمکی دی تھی کہ وہ 72 گھنٹوں میں جاپانی مغوی کا سرقلم کر دیں گے اگر اسے 20 کروڑ ڈالر کا تاوان موصول نا ہوا۔
ویڈیو میں ایک شخص کی انگریزی میں آواز، عربی ترجمے کے ساتھ سنائی دیتی ہے جس کے بارے میں خیال کیا جا رہا ہے کہ وہ صحافی گوٹو کی ہے۔ یہ شخص جاپانی وزیر اعظم شنزو ایبے کو براہ راست مخاطب کرتے ہوئے ان پر یوکاوا کی موت کا الزام عائد کرتا ہے۔
اس نے کہا کہ شدت پسندوں کو اب رقم مطلوب نہیں تھی بلکہ اس کی بجائے وہ ایک خاتون خود کش بمبار ساجدہ الرشاوی کی رہائی کا مطالبہ کر رہے تھے جو اُردن میں قید ہے۔
ٹوکیو میں، جاپانی وزیر اعظم نے اس لرزہ خیز وڈیو کو جاری کرنے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت دہشت گردی کے آگے نہیں جھکے گی۔
وائٹ ہاؤس کی طرف سے جاری بیان میں داعش کے انتہا پسندوں کے خلاف "ان کے خاتمے اور بالآخر شکست کے لیے فیصلہ کن کارروائی" کے عزم کا اظہار کیا گیا۔
امریکی وزیر دفاع چک ہیگل کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا کہ داعش کے "غیر انسانی اقدام کے بر عکس جاپان نے حالیہ مہینوں میں عراق اور شام کے عوام کے لیے فراخ دلی سے انسانی امداد فراہم کی" اور ان کے بقول داعش کی طرف سے مسلسل بربریت صرف ہمارے عالمی اتحاد کے اس دہشت گرد گروہ کو کمزور کرنے اور بالآخر ختم کرنے کے عزم کو مضبوط کر رہی ہے۔