امریکی صدر براک اوباما نے ایران کے جوہری پروگرام پر روک لگانے کے بین الاقوامی معاہدے کا پُرزور دفاع کرتے ہوئے، کہا ہے کہ اِس کی مدد سے ’ایران کی جانب سے بم بنانے کی تمام راہیں بند ہوجاتی ہیں‘۔
بدھ کو واشنگٹن میں ’امریکین یونیورسٹی‘ سے خطاب کرتے ہوئے، مسٹر اوباما نے کہا ’یہ ایک بہت ہی اچھا سمجھوتا ہے‘۔
اُنھوں نے امریکی کانگریس کے شش و پنج کے شکار قانون سازوں پر زور دیا کہ اگلے ہفتے ووٹنگ کے دوران وہ معاہدے کی منظوری دیں۔
سمجھوتے کی رو سے ایران پر پابندی ہوگی کہ وہ جوہری ہتھیار نہیں بنا سکتا، جس کے بدلے اُس پر اقوام متحدہ اور مغربی طاقتوں کی جانب سے عائد قدغنیں اٹھالی جائیں گی، جن کے نتیجے میں ایران کی معیشت کی رفتار رُک گئی ہے۔ تاہم، اس کے مخالفین کہتے ہیں کہ اِن شقوں پر عمل درآمد کی تصدیق کرنے کا طریقہٴکار بہت ہی ڈھیلا ڈھالا ہے۔
تاہم، مسٹر اوباما نے اِس تنقید کو سرزنش کے لائق قرار دیتے ہوئے کہا ہے ’یہ مذاکرات کی مدد سے طے کی جانے والی جوہری عدم پھیلاؤ کی ایک شاندار مثال ہے‘۔
مسٹر اوباما نے کہا کہ سنہ 2002 میں عراق کو فتح کرنے کے غلط فیصلے کے بعد، جس کی بنیاد غلط خفیہ معلومات تھی، کانگریس میں ایران کے ساتھ معاہدے پر ہونے والا یہ ایک ’نتیجہ خیز‘ مضمرات کا حامل مباحثہ ہے۔ اُس انٹیلی جنس رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ عراق کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے بیشمار ہتھیار موجود ہیں۔
صدر نے کہا کہ عراق جنگ کے کچھ حامی اب ایران کے ساتھ طے ہونے والے سمجھوتے کی کھل کر مخالفت کر رہے ہیں۔ تاہم، اُنھیں بین الاقوامی سطح پر ایران کے ساتھ طے کیے گئے سمجھوتے پر عمل درآمد کو ایک موقع فراہم کرنا چاہیئے۔