صدر اوباما نے کہا ہے کہ سنہ 1979کے مقابلے میں، جب اُنھوں نے ہائی اسکول مکمل کیا، آج امریکی معیشت کا حجم دوگنا ہوچکا ہے، جب کہ دولت کا ارتکاز محض چند ہاتھوں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے
واشنگٹن —
صدر براک اوباما نے اس بات کی ضرورت پر زور دیا ہے کہ امریکی حکومت بڑھتی ہوئی معاشی عدم مساوات اور بہتری کی راہ میں رکاوٹوں کو دور کرنے کی سعی کرے، ’جو امریکی خواب کی تعبیر میں حائل ہیں‘۔
صدر نے یہ بات منگل کے روز ’سینٹر فور امریکن پروگریس‘ سے خطاب کرتے ہوئے کہی، جو ایک عوامی پالیسی کی ایک تنظیم کی حیثیت سے معاشی معاملات پر کشادہ دلی پر مبنی مؤقف اپناتی رہی ہے۔
صدر اوباما نے کہا کہ سنہ 1979کے مقابلے میں، جب اُنھوں نے ہائی اسکول مکمل کیا، آج امریکی معیشت کا حجم دوگنا ہوچکا ہے، جب کہ دولت کا ارتکاز محض چند ہاتھوں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔
اُن کے بقول، ’لیکن، عدم مساوات کے لحاظ سے ملک میں آنے والی تفریق نمایاں تر ہوتی جا رہی ہے، اور یہ بات بحیثیتِ قوم، ہماری روح کو جنجھوڑتی ہے‘۔
صدر نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ امریکیوں کو چاہیئے کہ وہ عدم مساوات کو اقلیت کی تشویش کا معاملہ نہ سمجھیں۔ اُنھوں نے کہا کہ امریکہ میں غیر منصفانہ مواقع کی موجودگی کی بنیاد درجہ بندی کے علاوہ نسلی نوعیت کا معاملہ بھی ہے۔
یہ کہتے ہوئے کہ آگے بڑھنے کے مواقع کا میسر نہ ہونا اس عہد کا ایک بڑا چیلنج ہے، اُنھوں نے کہا کہ واشنگٹن میں جاری مباحثے ملک کے مستقبل پر ’دور رس نتائج‘ کا باعث بنیں گے۔
صدر کا یہ بیان ہاورڈ یونیورسٹی کے رائے عامہ کے جائزے جاری ہونے کے چند گھنٹوں کے اندر اندر سامنے آیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نوجوان امریکی مسٹر اوباما کے دوبارہ انتخاب کے بعد ہر شعبے کی کارکردگی پر ناخوش ہے۔
سروے میں شامل 18 سے 29 برس کے امریکیوں کے 50 فی صد سے زائد شرکاٴ نے صدر کی طرف سے صحت عامہ کی نگہداشت، خارجہ پالیسی اور وفاقی بجٹ کے علاوہ معیشت کے میدان میں کارکردگی کو ناپسند کیا ہے۔
عام جائزے میں اس بات کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ اِن احساسات کے باوجود، 46 فی صد امریکی یہ کہتے ہیں کہ اگر آج اُن سے 2012ء کے انتخاب میں دوبارہ ووٹ دینے کے لیے کہا جائے، تو وہ پھر سے مسٹر اوباما کے ہی حق میں ووٹ ڈالیں گے۔
صدر نے یہ بات منگل کے روز ’سینٹر فور امریکن پروگریس‘ سے خطاب کرتے ہوئے کہی، جو ایک عوامی پالیسی کی ایک تنظیم کی حیثیت سے معاشی معاملات پر کشادہ دلی پر مبنی مؤقف اپناتی رہی ہے۔
صدر اوباما نے کہا کہ سنہ 1979کے مقابلے میں، جب اُنھوں نے ہائی اسکول مکمل کیا، آج امریکی معیشت کا حجم دوگنا ہوچکا ہے، جب کہ دولت کا ارتکاز محض چند ہاتھوں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔
اُن کے بقول، ’لیکن، عدم مساوات کے لحاظ سے ملک میں آنے والی تفریق نمایاں تر ہوتی جا رہی ہے، اور یہ بات بحیثیتِ قوم، ہماری روح کو جنجھوڑتی ہے‘۔
صدر نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ امریکیوں کو چاہیئے کہ وہ عدم مساوات کو اقلیت کی تشویش کا معاملہ نہ سمجھیں۔ اُنھوں نے کہا کہ امریکہ میں غیر منصفانہ مواقع کی موجودگی کی بنیاد درجہ بندی کے علاوہ نسلی نوعیت کا معاملہ بھی ہے۔
یہ کہتے ہوئے کہ آگے بڑھنے کے مواقع کا میسر نہ ہونا اس عہد کا ایک بڑا چیلنج ہے، اُنھوں نے کہا کہ واشنگٹن میں جاری مباحثے ملک کے مستقبل پر ’دور رس نتائج‘ کا باعث بنیں گے۔
صدر کا یہ بیان ہاورڈ یونیورسٹی کے رائے عامہ کے جائزے جاری ہونے کے چند گھنٹوں کے اندر اندر سامنے آیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نوجوان امریکی مسٹر اوباما کے دوبارہ انتخاب کے بعد ہر شعبے کی کارکردگی پر ناخوش ہے۔
سروے میں شامل 18 سے 29 برس کے امریکیوں کے 50 فی صد سے زائد شرکاٴ نے صدر کی طرف سے صحت عامہ کی نگہداشت، خارجہ پالیسی اور وفاقی بجٹ کے علاوہ معیشت کے میدان میں کارکردگی کو ناپسند کیا ہے۔
عام جائزے میں اس بات کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ اِن احساسات کے باوجود، 46 فی صد امریکی یہ کہتے ہیں کہ اگر آج اُن سے 2012ء کے انتخاب میں دوبارہ ووٹ دینے کے لیے کہا جائے، تو وہ پھر سے مسٹر اوباما کے ہی حق میں ووٹ ڈالیں گے۔