امریکہ کے صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ ان کا ملک کیوبا کے ساتھ سرد جنگ کے زمانے کے اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر ایسے مستقبل کی جانب سفر کے لیے تیار ہے جس میں دونوں ملکوں کا فائدہ ہو۔
منگل کو اپنے دورۂ کیوبا کے آخری روز ہوانا کے ایک مرکزی ہال میں خطاب کرتے ہوئے صدر اوباما نے کہا کہ وہ کیوبا کے عوام کے لیے دوستی کا ہاتھ بڑھانے ہوانا آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہی وقت ہے کہ دونوں ملک ماضی کو پسِ پشت ڈال کر آگے بڑھیں۔
صدر اوباما نے تسلیم کیا کہ ماضی بھلا کر آگے بڑھنے کا عمل آسان نہیں بلکہ وقت اور دقت طلب ہوگا لیکن، ان کے بقول، ایسا کرنا دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے۔
صدر اوباما کا خطاب سننے کیوبا کے صدر راؤل کاسترو سمیت ملک کے اعلیٰ حکومتی عہدیداران اور اشرافیہ سے تعلق رکھنے والی بااثر شخصیات ہوانا کے 'ایل گران ٹیٹرو ڈو ہوانا' میں موجود تھیں۔ کیوبا کے سرکاری ٹی وی نے صدر اوباما کا خطاب براہِ راست بھی نشر کیا۔
اپنی تقریر میں صدر اوباما نے کہا کہ وہ مستقبل میں کیوبا اور امریکہ کی حکومتوں اور عوام کے درمیان تعلقات میں بہتری کے بارے میں پر امید ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان ماضی کی دشمنی کا اثر زائل کرنے کے عمل کا آغاز باہمی تفہیم اور درگزر سے کرنا ہوگا۔
امریکی صدر نے حاضرین کی تالیوں کی گونج میں کہا کہ وہ کیوبا کے مستقبل کے بارے میں پرامید ہیں کیوں کہ انہیں کیوبا کے عوام کے عزم پر یقین ہے۔
صدر نے اپنی تقریر میں دونوں ملکوں کے درمیان اختلافات کی تاریخ اور کئی دہائیوں تک جاری رہنے والے قطع تعلق کے علاوہ ان عوامل کا بھی تذکرہ کیا جو دونوں ملکوں اور ان کے عوام میں مشترک ہیں۔
انہوں نے اپنے خطاب میں ان اختلافات کی بھی نشان دہی کی جو امریکہ اور کیوبا کے تعلقات میں آنے والی حالیہ گرم جوشی کے باوجود دونوں ملکوں کے درمیان بدستور موجود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کیوبا اور امریکہ – دونوں کے عوام حب الوطنی، خاندانی روایات، قومی تفاخر، تعلیم اور جدت جیسے اصولوں پر یقین رکھتے ہیں لیکن دونوں کے درمیان معیشت، حکومت اور معاشرت کو چلانے کے طریقوں پر اختلافات موجود ہیں۔
دورانِ خطاب صدر اوباما نے حاضرین میں موجود صدر کاسترو کو مخاطب کرتےہوئے کہا کہ آپ کو امریکہ سے کوئی خطرہ لاحق نہیں اور نہ ہی آپ کو اپنے عوام اور ان کی آرا سے خوف کھانے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے صدر کاسترو کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ "لوگوں کو اپنی حکومت پر تنقید کا اور اپنے حکمرانوں کے انتخاب کا حق حاصل ہونا چاہیے۔"
اپنے خطاب کے بعد صدر اوباما نے ہوانا میں واقع امریکی سفارت خانے میں کیوبا کی کمیونسٹ حکومت کے چند بڑے ناقدین اور سماجی اور سیاسی کارکنوں سے ملاقات کی اور ان کے ساتھ کیوبا میں انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کی صورتِ حال پر تبادلۂ خیال کیا۔
صدر اوباما اتوار کی شام تین روزہ سرکاری دورے پر ہوانا پہنچے تھے جو گزشتہ 88 برسوں میں کسی امریکی صدر کا کیوبا کا پہلا دورہ ہے۔
تین روزہ دورۂ کیوبا کی تکمیل پر صدر اوباما منگل کو ہوانا سے اپنی اگلی منزل ارجنٹائن روانہ ہوجائیں گے۔