اسرائیلی قیادت سے بات چیت میں وسیع امور پر تبادلہ خیال کیا جائے گا لیکن ایران کے جوہری پروگرام سے اسرائیل کو لاحق خطرات اور شام کی صورتحال مرکز نگاہ ہوں گے۔
امریکہ کے صدر براک اوباما بدھ کو اسرائیل پہنچے ہیں اور وائٹ ہاؤس کے مطابق یہ انتہائی اہم دورہ ہے جس میں صدر مغربی کنارے اور اردن بھی جائیں گے۔ اسرائیل کے قیام کے بعد سے یہاں کسی بھی امریکی صدر کا یہ پانچواں دورہ ہے۔
اسرائیل کے صدر شمون پریز اور وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے بن گوریون کے ہوائی اڈے پر امریکی صدر کا استقبال کیا۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری بھی صدر اوباما کے ہمراہ ہیں۔
یروشلم کو خیرمقدمی بینرز اور دونوں ملکوں کے پرچموں سے سجایا گیا ہے جب کہ سکیورٹی کے بھی سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔ صدر اوباما کے قیام کے دوران لگ بھگ پانچ ہزار اسرائیلی پولیس اہلکار تعینات رہیں گے۔
اسرائیل کے دورے کے دوران صدر اوباما کروڑوں ڈالرز کی امریکی امداد سے تیار ہونے والے میزائل شکن نظام اور راڈار ٹیکنالوجی کا بھی معائنہ کریں گے۔ بعد ازاں تینوں رہنما یروشلم میں بھی باضابطہ بات چیت کریں گے۔
امریکی صدر کا یہ دورہ ایک ایسے وقت ہورہا ہے جب اسرائیل کے تحفظ کے بارے میں ان کے متعدد پرعزم بیانات خصوصاً ایران کی دھمکیوں کے تناظر میں یہاں بدستور شک و شبہات پائے جاتے ہیں۔
اسرائیل ڈیموکریسی انسٹیٹیوٹ اور تل ابیب یونیورسٹی کے ایک مشترکہ جائزے سے معلوم ہوا ہے کہ 36 فیصد اسرائیلی یہودی اوباما کو اسرائیل کا دوست تصور کرتے ہیں۔ گزشتہ سال کی نسبت اس شرح میں اضافہ ہوا ہے۔
صدر اوباما نے اسرائیل کی سلامتی سے متعلق اپےعزم پر شکوک و شبہات کے ضمن میں 2012ء میں ایک نیوز کانفرنس میں کہا تھا کہ ’’اسرائیل سے متعلق میرے عزم کا اندازہ بحیثیت صدر میرے اقدامات سے لگایا جا سکتا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ پچھلے تین سالوں میں میں نے اسرائیل کی پشت پناہی کی ہے۔‘‘
اسرائیلی قیادت سے بات چیت میں وسیع امور پر تبادلہ خیال کیا جائے گا لیکن ایران کے جوہری پروگرام سے اسرائیل کو لاحق خطرات اور شام کی صورتحال مرکز نگاہ ہوں گے۔
ایک روز قبل شام میں بشار الاسد کی حکومت اور باغیوں نے ایک دوسرے پر کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا الزام لگایا تھا۔ صدر اوباما یہ کہہ چکے ہیں کہ اگر ایسا کچھ ہوا تو یہ امریکہ کی طرف سے متعین کردہ حدود کی خلاف ورزی ہوگی۔‘‘
وائٹ ہاؤس کے ترجمان جے کارنے کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ صدر اوباما کے پورے دورہ مشرق وسطیٰ میں ترجیحات میں شامل ہوگا۔
’’ مجھے اس میں کوئی شک نہیں وزیراعظم نتن یاہو اور صدر (اوباما) اس پر تبادلہ خیال کریں گے، صدر شمون پریز اور صدر (اوباما) بھی اس موضوع پر بات کریں گے، مجھے یقین ہے کہ دیگر رہنماؤں سے، اردن کے صدر اور ساتھ ہی ساتھ فلسطین کے رہنما سے، گفتگو میں بھی اس پر بات ہوگی۔‘‘
اسرائیل اور فلسطین کے تنازع پر وائٹ ہاؤس کے حکام کا کہنا تھا کہ صدر طرفین کو سنیں گے اور ایسے ممکنہ اقدامات کا جائزہ لیں گے جن سے براہ راست مذاکرات دوبارہ بحال کیے جا سکیں۔
مسٹر اوباما فلسطین کے صدر محمود عباس سے جمعرات کو مغربی کنارے میں رملہ میں ملاقات کریں گے۔
اسرائیل ڈیموکریسی انسٹیٹیوٹ کے اس ہی جائزے کے مطابق 62 فیصد اسرائیلی یہودیوں کا ماننا ہے کہ صدر اوباما اسرائیل، فلسطین تنازع کے حل کے لیے کوئی پیش رفت کر سکیں گے۔
اسرائیل کے صدر شمون پریز اور وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے بن گوریون کے ہوائی اڈے پر امریکی صدر کا استقبال کیا۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری بھی صدر اوباما کے ہمراہ ہیں۔
یروشلم کو خیرمقدمی بینرز اور دونوں ملکوں کے پرچموں سے سجایا گیا ہے جب کہ سکیورٹی کے بھی سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔ صدر اوباما کے قیام کے دوران لگ بھگ پانچ ہزار اسرائیلی پولیس اہلکار تعینات رہیں گے۔
اسرائیل کے دورے کے دوران صدر اوباما کروڑوں ڈالرز کی امریکی امداد سے تیار ہونے والے میزائل شکن نظام اور راڈار ٹیکنالوجی کا بھی معائنہ کریں گے۔ بعد ازاں تینوں رہنما یروشلم میں بھی باضابطہ بات چیت کریں گے۔
امریکی صدر کا یہ دورہ ایک ایسے وقت ہورہا ہے جب اسرائیل کے تحفظ کے بارے میں ان کے متعدد پرعزم بیانات خصوصاً ایران کی دھمکیوں کے تناظر میں یہاں بدستور شک و شبہات پائے جاتے ہیں۔
اسرائیل ڈیموکریسی انسٹیٹیوٹ اور تل ابیب یونیورسٹی کے ایک مشترکہ جائزے سے معلوم ہوا ہے کہ 36 فیصد اسرائیلی یہودی اوباما کو اسرائیل کا دوست تصور کرتے ہیں۔ گزشتہ سال کی نسبت اس شرح میں اضافہ ہوا ہے۔
صدر اوباما نے اسرائیل کی سلامتی سے متعلق اپےعزم پر شکوک و شبہات کے ضمن میں 2012ء میں ایک نیوز کانفرنس میں کہا تھا کہ ’’اسرائیل سے متعلق میرے عزم کا اندازہ بحیثیت صدر میرے اقدامات سے لگایا جا سکتا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ پچھلے تین سالوں میں میں نے اسرائیل کی پشت پناہی کی ہے۔‘‘
اسرائیلی قیادت سے بات چیت میں وسیع امور پر تبادلہ خیال کیا جائے گا لیکن ایران کے جوہری پروگرام سے اسرائیل کو لاحق خطرات اور شام کی صورتحال مرکز نگاہ ہوں گے۔
ایک روز قبل شام میں بشار الاسد کی حکومت اور باغیوں نے ایک دوسرے پر کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا الزام لگایا تھا۔ صدر اوباما یہ کہہ چکے ہیں کہ اگر ایسا کچھ ہوا تو یہ امریکہ کی طرف سے متعین کردہ حدود کی خلاف ورزی ہوگی۔‘‘
وائٹ ہاؤس کے ترجمان جے کارنے کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ صدر اوباما کے پورے دورہ مشرق وسطیٰ میں ترجیحات میں شامل ہوگا۔
’’ مجھے اس میں کوئی شک نہیں وزیراعظم نتن یاہو اور صدر (اوباما) اس پر تبادلہ خیال کریں گے، صدر شمون پریز اور صدر (اوباما) بھی اس موضوع پر بات کریں گے، مجھے یقین ہے کہ دیگر رہنماؤں سے، اردن کے صدر اور ساتھ ہی ساتھ فلسطین کے رہنما سے، گفتگو میں بھی اس پر بات ہوگی۔‘‘
اسرائیل اور فلسطین کے تنازع پر وائٹ ہاؤس کے حکام کا کہنا تھا کہ صدر طرفین کو سنیں گے اور ایسے ممکنہ اقدامات کا جائزہ لیں گے جن سے براہ راست مذاکرات دوبارہ بحال کیے جا سکیں۔
مسٹر اوباما فلسطین کے صدر محمود عباس سے جمعرات کو مغربی کنارے میں رملہ میں ملاقات کریں گے۔
اسرائیل ڈیموکریسی انسٹیٹیوٹ کے اس ہی جائزے کے مطابق 62 فیصد اسرائیلی یہودیوں کا ماننا ہے کہ صدر اوباما اسرائیل، فلسطین تنازع کے حل کے لیے کوئی پیش رفت کر سکیں گے۔