عراق سے متعلق ’تمام آپشنز پر غور کر رہے ہیں‘: صدر اوباما

صدر اوباما کا کہنا تھا کہ امریکہ کی قومی سلامتی کے مفادات کو خطرے کی صورت میں وہ فوجی کارروائی کرنے کے لیے تیار ہے۔
امریکہ کے صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ وہ بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی کے خلاف عراق کی حکومت کی مدد کے لیے تمام آپشنز پر غور کر رہے ہیں۔

وائٹ ہاوس میں صحافیوں سے گفتگو میں جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا امریکہ اس شدت پسندی کو روکنے کے لیے ڈرون حملوں یا کسی اور کارروائی پر غور کر رہا ہے تو صدر کا کہنا تھا کہ " میں کسی بھی امکان کو رد نہیں کرتا"۔

وائٹ ہاوس میں آسٹریلیا کے وزیراعظم ٹونی ایبٹ سے ملاقات کے بعد ان کا کہنا تھا کہ امریکہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتا ہے کہ "جہادی عراق میں اپنے قدم نہ جما سکیں اور نہ شام میں۔"

ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کی قومی سلامتی کے مفادات کو خطرے کی صورت میں وہ فوجی کارروائی کرنے کے لیے تیار ہے۔


امریکی محکمہ خارجہ نے اعلان کیا کہ وہ عراق میں تقریباً پانچ لاکھ لوگوں کے بے گھر ہونے سے پیدا ہونے والی صورتحال کی وجہ سے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ایک کروڑ 28 لاکھ ڈالرز کی اضافی مدد فراہم کرے گا۔

اس میں 66 لاکھ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین اور 62 لاکھ دیگر بین الاقوامی تنظیموں کو فراہم کیے جائیں گے اور اس سے متاثرین کو خوراک، عارضی پناہ گاہ اور طبی امداد دی جاسکے گی۔

محکمہ خارجہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ سکیورٹی کے بڑھتے ہوئے خدشات کے باعث عراق میں کام کرنے والے بعض امریکی شہریوں کو ان کے اداروں کی طرف سے عارضی طور پر واپس بلا لیا گیا ہے۔

محکمہ خارجہ کے ترجمان کے مطابق عراق میں موجود امریکیوں کے صحیح اعدادوشمار تو موجود نہیں لیکن امریکی سفارتخانے اور قونصل خانوں کے اہلکاروں میں کوئی تبدیلی نہیں کی جارہی۔


عراق میں دولت الاسلامیہ عراق والشام نامی تنظیم کے شدت پسندوں نے رواں ہفتے ملک کے مختلف علاقوں پر قبضہ کرنے کے بعد یہ دھمکی دی ہے کہ وہ کربلا کے علاوہ بغداد پر بھی قبضہ کریں گے۔

موصل میں ان کے قبضے کے بعد یہاں سے تقریباً پانچ لاکھ لوگ اپنا گھر بار چھوڑ کر دیگر علاقوں میں منتقل ہونے پر مجبور ہوئے۔