بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے وائٹ ہاؤس میں منگل کے روز کی ملاقات میں اس سال پیرس میں ہونے والےموسمیاتی سمجھوتے پر عمل درآمد کی حمایت کا اظہار کیا۔ عزم کے اظہار کے لحاظ سے حمایت کا معاملہ توثیق سے کم درجے کا ہے، جس کی صدر براک اوباما کو توقع تھی۔
اگر بھارت اس سمجھوتے کی توثیق کرتا تو سنہ 2020کے ہدف سے پہلے اس پر عمل درآمد ممکن ہوتا، جس سے ایک مضبوط اشارہ جاتا کہ موسمیاتی تبدیلی سے نبردآزما ہونے کے سلسلے میں ترقی پذیر ممالک سنجیدہ ہیں، اور یہ کہ بات چیت کے دوران صدر نے اپنے بھارتی ہم منصب کو قائل کر لیا۔ لیکن، سامنے آنے والا جواب توقعات کے مقابلے میں کم ہے۔
صدر اوباما اور مودی کی ملاقات کے بعد، ایک اخباری بریفنگ کے دوران وائٹ ہاؤس ترجمان، جوش ارنیسٹ نے بتایا کہ ’’میرے خیال میں وزیر اعظم مودی نے اس بارے میں جو بات کی ہے وہ یہ ہے کہ بھارت امریکہ کی جانب سے بیان کردہ مقاصد کا حامی ہے، جس کا مقصد یہ ہے کہ سمجھوتے پر اسی سال عمل درآمد شروع ہوجائے گا‘‘۔
’ورلڈ رسورسز انسٹی ٹیوٹ‘ کے سینئر فیلو، انڈریو لائٹ کے مطابق، موسیماتی تبدیلی اور شفاف توانائی کے سلسلے میں اوباما اور مودی کی سوچ درحقیقت یکساں ہے۔
اینڈریو لائٹ بھارت اور موسمیاتی معاملات پر محکمہٴ خارجہ کے سابق مشیر رہ چکے ہیں۔ دونوں اسے ایک اخلاقی معاملہ اور آئندہ نسلوں کے لیے ایک ذمہ داری قرار دیتے ہیں۔ لائٹ نے کہا کہ دونوں یہی چاہتے ہیں کہ ترقی کا پہلو اُن کے ورثے میں شامل گردانہ جائے۔
بقول اُن کے، اس کا مطلب تعمیری تعاون ہے۔ گذشتہ دو برس کے دوران، دونوں نے 15 مشترکہ موسمیاتی اور توانائی کے پروگرام تشکیل دیے ہیں۔
بھارت میں شمسی توانائی پر زور
تاہم، ناقدین نے توجہ دلائی ہے کہ پیرس سمجھوتے کے تحت بھارت نے عزم کا کم اظہار کیا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ کرہٴ ارض کو دو ڈگری درجہٴ حرارت تک کم رکھنے میں مدد دینے کے لیے بھارت اور دیگر ملکوں کو مزید کام کرنے کی ضرورت ہوگی، سائنس دانوں کے مطابق، اسی پر کرہٴ ارض کی بہتری کا دارومدار ہے۔
ایسے میں جب دسمبر میں مودی پیرس سے لوٹے، اُنھوں نے اپنی کابینہ کا اجلاس بلایا جس میں بہتری کی تجاویز پر غور کیا گیا۔ یہ بات اجے متھور نے بتائای ہے، جو توانائی اور وسائل کے بھارتی انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر جنرل ہیں۔
متھور نے کہا ہے کہ اس کاوش کے نتیجے میں جو اہم پروگرام سامنے آیا ہے وہ یہ ہے کہ زراعی پمپوں کو کس طرح بہتر بنایا جائے، جو کم کارکردگی دکھاتے ہیں۔
متھور کے مطابق، دوسری کوشش یہ ہوگی کہ ایئر کنڈیشنرز کو مزید بہتر بنایا جائے۔ اُنھوں نے بتایا کہ توانائی کے میدان میں بھارت میں ایئر کنڈیشننگ کا شعبہ تیزی سے فروغ پارہا ہے۔
سنہ 2014 میں مودی نے یہ ہدف دیا تھا کہ سال 2022ء تک شمسی توانائی کو بڑھا کر 100 گیگاواٹس کیا جائے۔
امریکی صدر براک اوباما اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے منگل کے روز بھارت میں چھ جوہری ری ایکٹروں پر ابتدائی کام کے آغاز کا خیرمقدم کیا، جسے ایک عشرہ قبل ہونے والےامریکہ بھارت سول نیوکلیئر معاہدے پر عمل درآمد کی جانب پہلا کلیدی اقدام خیال کیا جارہا ہے۔
دونوں سربراہان نے کہا ہے کہ یہ مشترکہ بیان کہ بھارت اور برآمدات و درآمدات کا امریکی بینک مل کر کام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جس کا مقصد اس منصوبے کے لیے مسابقانہ بنیاد پر مالی پیکیج کی فراہمی ہے اور اس معاہدے کی رو سے جون 2017ء تک منصوبے کو حتمی شکل دے دی جائے گی۔
مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’مکمل ہونے پر، یہ منصوبہ اپنی نوعیت کا سب سے بڑا پراجیکٹ ہوگا، جس سے امریکہ بھارت سول نیوکلیئر سمجھوتے کا وعدہ پورا ہوگا، جو بھارت کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے مشترکہ عہد کو عملی شکل دینے کا مظاہرہ ہوگا، جس سے کوئلے کی ایندھن پر انحصار میں کمی لانے میں مدد ملے گی‘‘۔