امریکہ کے صدر براک اوباما نے اپنے ترک ہم منصب رجب طیب اردوان کو ترکی میں گزشتہ ہفتے ہونے والی ناکام بغاوت کی تحقیقات میں معاونت کی پیشکش کی ہے۔
وائٹ ہاوس کے مطابق منگل کو اردوان سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے صدر اوباما نے واضح کیا کہ امریکہ تحقیقات میں "مناسب معاونت فراہم" کرے گا۔
دونوں رہنماوں نے ترکی کی طرف سے مسلم مذہبی شخصیت فتح اللہ گولن کی حوالی کی درخواست پر بھی تبادلہ خیال کیا تاکہ ان پر بغاوت کی کوشش سے وابستہ ہونے کے الزام میں مقدمہ چلایا جا سکے۔
وائٹ ہاوس کے ترجمان نے گولن کی ممکنہ حوالگی پر امریکہ کے موقف سے متعلق تفصیلات تو فراہم نہیں کیں لیکن ان کے بقول اس بارے میں فیصلہ انقرہ اور واشنگٹن کے درمیان دیرینہ معاہدے کے مطابق کیا جائے گا۔
اردوان سے فون پر گفتگو میں اوباما نے بغاوت کی کوشش کی شدید مذمت کرتے ہوئے زور دیا کہ اس معاملے کی تفتیش اور عدالتی کارروائیاں اس انداز میں کی جائیں کہ جن سے عوام کا جمہوری اداروں اور قانون کی بالادستی پر اعتماد بڑھے۔
منگل کو ہی قبل ازیں ترکی نے بغاوت کی کوشش کرنے اور اس میں معاونت کے الزام میں سرکاری ملازمین اور اساتذہ کو بھی گرفتار کیا جب کہ 26000 سے زائد کو نوکریوں سے برخواست کر دیا گیا۔
ترک ذرائع ابلاغ کے مطابق ترک وزارت تعلیم نے ملک بھر سے 15200 اساتذہ جب کہ وزارت داخلہ نے نو ہزار ملازمین کو برطرف کیا۔ وزارت خزانہ نے بھی 1500 ملازمین کو فارغ کیا جب کہ مذہبی امور کے محکمے، خاندانی اور سماجی پالیسی کی وزارت اور ایوان وزیراعظم سے بھی سیکڑوں دیگر ملازمین کو ملازمتوں سے فارغ کیا جا چکا ہے۔
اسی دوران امریکی وزیر دفاع ایش کارٹر نے اپنے ترک ہم منصب کو ٹیلی فون کیا۔ ترک عہدیدار نے کارٹر کو یقین دلایا کہ ترکی انسداد دہشت گردی کی جنگ میں ایک پرعزم اتحادی ہے۔