آزادی صحافت کے لیے پرعزم ہیں: صدر اوباما

صحافی ڈائیو کے صدر اوباما کے ساتھ بیٹھے ہیں

امریکی صدر نے عزم ظاہر کیا کہ وہ غیرمنصفانہ طور پر جیلوں میں بند بشمول ایران میں قید واشنگٹن پوسٹ کے صحافی جیسن رضائیان کی رہائی کے لیے کام کرتے رہیں گے۔

امریکہ کے صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ بدقسمتی سے دنیا بھر میں بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں حکومتوں کی طرف سے سچ کو چھپانے یا شہریوں کو اپنا فیصلہ خود کرنے کی قابلیت پر عدم اعتماد کی وجہ سے آزادی صحافت حملوں کی زد میں ہے۔

یہ بات انھوں نے وائٹ ہاؤس میں آزادی صحافت کے عالمی دن کی مناسبت سے صحافیوں سے گفتگو میں کہی۔

ان کا کہنا تھا کہ اتوار ’تین مئی‘ کو یہ دن منایا جا رہا ہے جس میں ہم جمہوریت میں آزادی صحافت کی اہمیت کا عزم دہرانے کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں اس شعبے کو درپیش چیلنجز پر روشنی ڈالتے ہیں۔

اس موقع پر مشکل ترین حالات میں بہادری سے اپنی قابلیت کا مظاہرہ کرنے والے مختلف ملکوں کے تین صحافی کی خدمات کو سراہتے ہوئے صدر اوباما نے کہا کہ ان تینوں کو ماضی میں ہراس یا تحویل کا سامنا رہا اور اب یہ امریکہ میں پناہ حاصل کر چکے ہیں۔ " ہم انھیں خوش آمدید کہیں گے تاکہ یہ اپنا اہم کام جاری رکھ سکیں۔"

فاطمہ تلسوا

ان صحافیوں میں سے ایک روس سے تعلق رکھنے والی فاطمہ تلسوا ہیں جو شمالی خطہ قفقاز میں فوجی کارروائیوں کے علاوہ یہاں لوگوں کی گمشدگیوں اور بدعنوانی سے متعلق خبر نگاری کرتی رہیں۔

صدر نے کہا کہ "اب یہ (فاطمہ) وائس آف امریکہ کے لیے کام کر رہی ہیں اور حال ہی میں انھوں نے بوسٹن بم دھماکوں کے مقدمے کی رپورٹنگ کی، ہم ان کی یہاں موجودگی کو سراہتے ہیں۔"

دوسرے صحافی ڈائیو کے کا تعلق برما سے ہے، یہ ان کا قلمی نام ہے۔ ڈائیو کے بطور بلاگر انسانی حقوق بشمول مذہبی آزادی پر کام کرتے رہے۔ انھیں چھ سال تک قید کی سزا بھی کاٹنی پڑی اور وہ گزشتہ اکتوبر میں ہی رہا ہوئے۔

تیسری صحافی للی منگیشا کو تعلق ایتھوپیا سے ہے۔ وہ کم عمری میں شادی کے معاملے پر اپنے کام سے توجہ دلاتی رہی ہیں۔ آزادی صحافت کے لیے آواز اٹھانے پر انھیں ہراساں کیا جاتا رہا اور تحویل میں بھی لیا گیا۔

صدر اوباما کا کہنا تھا کہ ہم اس موقع پر ان صحافیوں کی تکریم اور انھیں خراج تحسین بھی پیش کرتے ہیں جو ( اپنے فرائض کی انجام دہی کی وجہ سے) خطرات اور دیگر مشکلات کا شکار ہیں یا اپنی زندگی گنوا چکے ہیں۔ ان میں اسٹیون سوٹلوف، جیمز فولی اور لیوک سومرز اور وہ جو پیرس میں شارلی ایبڈو پر حملے میں مارے گئے، بھی شامل ہیں۔

امریکی صدر نے عزم ظاہر کیا کہ وہ غیرمنصفانہ طور پر جیلوں میں بند بشمول ایران میں قید واشنگٹن پوسٹ کے صحافی جیسن رضائیان کی رہائی کے لیے کام کرتے رہیں گے۔