اسٹیٹ آف دی یونین کا سالانہ خطاب ہمیشہ پالیسی کی ترجیحات اور سیاسی تھیٹر کا مجموعہ ہوتا ہے ۔ اس سال کی تقریر میں ایک انوکھی بات یہ تھی کہ دونوں پارٹیوں کے بہت سے ارکانِ کانگریس ایک ساتھ بیٹھے ہوئے تھے ۔ یہ ایری زونا کے اُس المیے کے بعد جس میں چھ افراد ہلاک اور کانگریس کی خاتون رکن گبرئیل گفورڈز سمیت کئی لوگ زخمی ہوئے، ارکان کانگریس کی طرف سے یکجہتی کا اظہار تھا۔
گفورڈز پر گولیاں چلائے جانے کے بعد سے، ملک کے سیاسی ماحول میں گرما گرمی کچھ کم ہو ئی ہے ۔صدر اوباما نے اس موقع کو اتحاد اور تعاون کی نئی اپیل کے لیئے استعمال کیا۔ انھوں نے کہا’’ہم یا تو ایک ساتھ آگے بڑھیں گے یا ایک قدم بھی نہیں اٹھا سکیں گے کیوں کہ ہمیں جن چیلنجوں کا سامنا ہے ان سے نمٹنا کسی ایک پارٹی کے بس کی بات نہیں اور انہیں سیاسی جوڑ توڑ سے حل نہیں کیا جا سکتا۔‘‘
مسٹر اوباما کو واشنگٹن میں ایک نئی سیاسی حقیقت سے نمٹنا پڑ رہا ہے۔ اب ایوانِ نمائندگان کا کنٹرول ریپبلیکنز کے پاس ہے اور سینیٹ میں ڈیموکریٹس کی اکثریت کم ہو گئی ہے ۔
ریاست وسکانسن کے کانگریس مین پال رائن نے صدر کی تقریر کے جواب میں ریپبلیکن پارٹی کا سرکاری موقف پیش کیا۔ انھوں نے کہا’’یہ وہ لمحہ ہے کہ اگر حکومت کے پھیلاؤ کو روکا نہ گیا تو امریکہ کی بہترین صدی ہماری ماضی کی صدی سمجھی جائے گی۔‘‘
لیکن ایک اور انوکھی بات ہوئی ۔ صدر کی تقریر کے جواب میں، ریاست منی سوٹا کی ریپبلیکن خاتون رکن ِ کانگریس مائیکل بیکمان نے ملک میں ٹی پارٹی گروپوں کی طرف سے تقریر کی۔ انھوں نے کہا’’آپ کی وجہ سے ، کانگریس جوابی اقدامات کر رہی ہے، اور گذشتہ چند برسوں میں جو نقصان پہنچا ہے، ہم نے اس کی اصلاح کے اقدامات ابھی شروع ہی کیئے ہیں۔‘‘
اعتدال پسند لوگوں کو صدر کی اسٹیٹ آف دی یونین تقریر میں امید افزا علامتیں نظر آئیں۔ ریپبلیکن تجزیہ کار مارک میک کنون اعتدال پسند گروپ نو لیبلز کے بانی ہیں۔ یہ گروپ دونوں پارٹیوں کے درمیان تعاون کو فروغ دیتا ہے ۔ وہ کہتے ہیں’’ہمارا خیال ہے کہ واشنگٹن کے سیاسی ماحول میں صحیح معنوں میں ٹھہراؤ آیا ہے اور اب دونوں پارٹیوں میں تبادلۂ خیال میں اضافہ ہوگا ، اور بالآخر ان مسائل کے حل نکل آئیں گے جو ہمیں در پیش ہیں۔‘‘
میک کنون کہتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ سیاسی طور پر غیر جانبدار لوگ ایک بار پھر صدر اوباما کی حمایت کرنے لگے ہیں۔ اس کی ایک وجہ وہ کامیابی ہے جو گذشتہ کانگریس کے اختتام پر دونوں پارٹیوں کے تعاون سے حاصل ہوئی۔ اس کے علاوہ،ٹیوسان، ایری زونا میں شوٹنگ کے المیے کے بعد، ملک کے سیاسی موڈ میں ٹھہراؤ آیا ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ صدر اوباما کو سیاست میں میانہ روی اختیار کرنے پر نوازا جا رہا ہے ۔ سابق صدر بل کلنٹن کے مقابلے میں صدر اوباما نے کہیں زیادہ تیزی سے درمیانی راستہ اختیار کیا ہے ۔ صدر کلنٹن کو بیچ کا راستہ اختیار کرنے میں چھ مہینے سے ایک برس لگ گیا تھا اور صدر اوباما نے یہ کام وسط مدتی انتخاب کے بعد، چند مہینوں میں کر لیا ہے ۔
بعض دوسرے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ سیاسی شعلہ بیانی میں جو ٹھہراؤ آیا ہے، وہ بہت تھوڑے عرصے قائم رہے گا۔ امریکن انٹرپرائز انسٹی ٹیوٹ کے جان فورٹیئر نے اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ آنے والے مہینوں میں دونوں پارٹیوں کی توجہ 2012 کے صدارتی انتخاب پر ہوگی ۔ ’’دونوں پارٹیوں کو مل جل کر کام کرنے کے کچھ مواقع ملیں گے، لیکن ان کی نظریں اس انتخاب پر بھی ہوں گی جس میں سیاست کا دخل بہت زیادہ ہوتا ہے ، جب مل جل کر کچھ کرنا مشکل ہوتا ہے، اور دونوں پارٹیاں 2012 کے انتخاب کے لیئے اپنے درمیان پائے جانے والے اختلافات کو نمایاں کرتی ہیں۔‘‘
وسط مدتی انتخاب میں ریپبلیکنز کی کامیابی کے بعد، رائے عامہ کے جائزوں میں مسٹر اوباما کی مقبولیت خاصی کم ہو گئی تھی۔ لیکن ماہرین نے یہ بات نوٹ کی ہے کہ حالیہ ہفتوں میں، ان کی مقبولیت کتنی تیزی سے بحال ہو ئی ہے ۔ دونوں پارٹیوں کے لیئے اس میں یہ سبق ہے کہ امریکی سیاست میں اکثر تبدیلی آنے میں دیر نہیں لگتی۔