دونوں پارٹیاں نومبر کے انتخابات سے پہلے فنڈ جمع کرنے اور انتخابی مہم کی کوششوں کو تیز کر رہی ہیں۔ صدر اوباما نے اپنی انتخابی مہم میں کام کرنے والوں کو ایک وڈیو بھیجی ہے جس میں انہیں دو سال پہلے کی فاتحانہ انتخابی مہم کی یاد دہانی کرائی گئی ہے ۔’’آپ میں سے ہر ایک کو یہ بات یقینی بنانی ہو گی کہ نوجوان لوگ، افریقی امریکی، لاطینی اور عورتیں جن کی طاقت کے بل پر ہم نے 2008 ء میں فتح حاصل کی تھی، ایک بار پھر متحد ہو جائیں۔‘‘
بیشتر سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ اس سال ڈیموکریٹس کے مقابلے میں ریپبلیکنز کے لیے اپنے حامیوں میں جوش و جذبہ پیدا کرنا آسان ہوگا۔
علاج معالجے کے نظام میں اصلاح کے قانون کی منظوری کے بعد بھی،جو صدر کی اولین داخلی ترجیح تھی، رائے عامہ کے جائزوں میں ان کی پوزیشن بہتر نہیں ہوئی ہے ۔ کوئنی پیاک یونیورسٹی کے پولسٹر پیٹر براؤن کہتے ہیں’’جب علاج معالجے کے نظام میں اصلاح کا قانون منظور ہوا اور صدر اوباما نے اس پر دستخط کر دیے تو ڈیموکریٹس کو توقع تھی کہ لوگ صدر کے گِرد جمع ہو جائیں گےاور ان کی کارکردگی کے بارے میں لوگوں کی رائے بہتر ہو جائے گی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ رائے عامہ کے جائزوں کے نتائج ویسے ہی رہے۔ وہ بہت زیادہ خراب نہیں ہیں، لیکن کوئی خاص اچھے بھی نہیں ہیں۔‘‘
مسٹر اوباما کی مقبولیت کی شرح بیشتر حالیہ پولز میں 50 فیصد کے لگ بھگ یا اس سے کچھ نیچے رہتی ہے۔ رائے عامہ کے جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیشتر امریکی اب بھی صدر کو پسند کرتے ہیں چاہے وہ ان کی پالیسیوں سے متفق نہ ہوں۔
تاریخی اعتبار سے، صدر کی مقبولیت کی شرح کانگریس کے وسط مدتی انتخابات پر اثر انداز ہوتی ہے۔ گذشتہ پچاس برسوں میں جس پارٹی کا صدر وہائٹ ہاؤس میں ہوتا ہے اس نے تقریباً ہمیشہ وسط مدتی انتخاب میں سینیٹ اور ایوانِ نمائندگان میں کچھ نشستیں کھوئی ہیں، اگر صدر کی مقبولیت کی شرح پچاس فیصد سے کم ہو۔
ڈیموکریٹس اور ان کے انتخاب کے نتائج کے لیے سب سے بڑی کمزوری معیشت اور بے روزگاری کی اونچی شرح ہے ۔ کُک پولیٹیکل رپورٹ کے ڈیوڈ ویسرمین کہتے ہیں کہ اگرچہ ایسی علامتیں ظاہر ہوئی ہیں کہ معیشت آہستہ آہستہ بہتر ہو رہی ہے، روزگار کے حالت بہتر نہ ہونے سے نومبر میں ڈیموکریٹس کو نقصان ہو سکتا ہے۔ بر سرِ اقتدار پارٹی کے بارے میں لوگوں کا رویہ متعین ہونے میں بے روزگاری بہت اہم ہے۔
ریپبلیکنز کو ٹی پارٹی تحریک کی سرگرمیوں سے بھی فائدہ ہو رہا ہے۔ یہ وہ تحریک ہے جس میں چھوٹے علاقوں کے قدامت پسند کارکن بہت سرگرم ہیں اور وہ کانگریس میں صدر اور ان کے ڈیموکریٹک حامیوں کے خلاف منظم ہو رہے ہیں۔ سابق ریپبلیکن کانگریس مین، ڈک آرمی جنھوں نے ٹی پارٹی کی تحریک کی حوصلہ افزائی کی ہے، کہتے ہیں کہ نومبر میں ووٹروں میں ڈیموکریٹس کے خلاف جذبات پیدا کرنے میں یہ تحریک بہت اہم کردار ادا کرے گی۔
بیشتر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ٹی پارٹی کے بیشتر حامی نومبر میں ریپبلیکن پارٹی کے قدامت پسند امیدواروں کو ووٹ دیں گے۔
ڈِک آرمی کہتے ہیں کہ دباؤ کانگریس کے ریپبلیکن امید واروں پر ہو گا کہ وہ ٹی پارٹی کے حامیوں پر یہ ثابت کریں کہ وہ صحیح معنوں میں قدامت پسند ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ’’لیکن ریپبلیکنز اب بھی یہ کہنے میں دشواری محسوس کرتے ہیں کہ ہاں وہی صحیح معنوں میں قدامت پسند ہیں۔ میں ٹی پارٹی کا ساتھ دے رہا ہوں کیوں کہ ٹی پارٹی کے کارکن اب بھی اس انتظار میں ہیں کہ ریپبلیکنز ان سے کہیں کہ وہ اس قسم کے ریپبلیکنز نہیں ہیں جنھوں نے چند سال قبل ان کا دِل توڑا تھا۔ ریپبلیکن پارٹی کو انہیں اس بات پر قائل کرنے کا کوئی طریقہ دریافت کرنا ہوگا کہ وہ ذمہ دار بالغ افراد ہیں‘‘۔
رائے عامہ کے جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیشتر ریپبلیکن اور غیر جانب دار ووٹرز صدر کے اقتصادی ایجنڈے کے خلاف ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس پر بہت پیسہ خرچ ہو گا اور بجٹ کے خسارے میں اضافہ ہو گا۔
تاریخی اعتبار سے وائٹ ہاؤس کو کنٹرول کرنے والی پارٹی نئے صدر کے پہلے وسط مدتی انتخاب میں امریکی کانگریس میں کچھ نشستیں کھو دیتی ہیں۔ اگرچہ ڈیموکریٹس تسلیم کرتے ہیں کہ نومبر میں ریپبلیکنز کو کچھ نشستیں مِل جائیں گی، ان کا کہنا ہے کہ اگلے دوبرسوں میں معیشت کی بہتر ہوتی ہوئی حالت سے 2012ء میں صدر کو دوبارہ منتخب ہونے میں مدد ملے گی۔