صدر نے کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ 2013ء اُن کے صدارتی عہدے کا بدترین سال تھا، جیسا کہ اکثر امریکی سیاسی تجزیہ کار دعویٰ کرتے ہیں۔
واشنگٹن —
امریکی صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ 2014ء کو ’عمل کا سال ہونا چاہیئے‘، جس دوران ملک کی ’لیبر مارکیٹ‘ کو فروغ ملے اور ’ٹوٹے ہوئے‘ اِمیگریشن نظام کو درست کیا جائے۔
جمعے کے روز سال کی آخری اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے، مسٹر اوباما نے حالیہ دِنوں کے دوران، امریکی معیشت میں حاصل ہونے والی پیش رفت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ ملک میں بے روزگاری کی شرح کو کم کرنے اور طویل مدت سے بے روزگار کارکنوں کے لیے سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانے کے سلسلے میں ’ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے‘۔
اُنھوں نے یہ بھی کہا کہ لوگوں کو صحت کا بیمہ خریدنے کے حوالے سے حکومت کے غیرمؤثر اندراج کے نظام کو دور کرنے کا اقدام اور کانگریس کے ساتھ حال ہی میں طے ہونے والا سمجھوتا یہ ظاہر کرتا ہے کہ انتظامیہ ’بے مقصد تعطل‘ میں الجھی ہوئی نہیں رہے گی۔
امریکی سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ 2013ء مسٹر اوباما کے پانچ برس کے دورِ اقتدار کا بدترین سال تھا۔ اُن کی مقبولیت کی شرح تیزی سے گِری ہے، اور ’سی این این‘ کے ایک تازہ ترین عام جائزے سے پتا چلتا ہے کہ 41فی صد کے مقابلے میں 56فی صد امریکی اُن کی طرف سے صدارتی عہدے کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں۔
صدر اوباما کے فخریہ صحت عامہ کی نگہداشت کے اصلاحاتی پروگرام پر، جسے عرف ِ عام میں امریکہ میں ’اوباما کیئر‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، اُن پر شدید تنقید کی گئی۔
ادھر، سابق سکیورٹی اہل کار، ایڈورڈ سنوڈن کی طرف سے نیشنل سکیورٹی ایجنسی کے نگرانی کے مبینہ پروگرام کے بارے میں وسیع پیمانے پر رازوں کا افشا بھی مسٹر اوباما کے قد کاٹھ میں کمی کا سبب بنا۔ اِن انکشافات نے مسٹر اوباما کو مجبور کیا کہ وہ متعدد امریکیوں کی تشویش کے معاملے سے نمٹیں، جس میں یہ کہا گیا کہ ممکنہ طور پر حکومت اپنے اختیارات سے تجاوز پر اُتر آئی ہے، اِس کوشش میں امریکہ کے خلاف کسی مزید دہشت گرد حملے کا قلع قمع ہو۔
اس ہفتے، ایک جج نے نگرانی کے پروگرام کو غیر آئینی قرار دیا، اور مسٹر اوباما کی طرف سے قائم کردہ نظر ثانی سے متعلق ماہرین کے ایک پینل نے رائے دی ہے کہ اِس معاملے میں حدود کا تعین کیا جائے، جن سفارشات کا وہ اِن دِنوں جائزہ لے رہے ہیں۔
صدر نے وائٹ ہاؤس سے نامہ نگاروں سے گفتگو کی،جس کے بعد وہ کرسمس کی چھٹیاں منانے کے لیے امریکی خاتونِ اول مشیل اوباما اور بیٹیوں کے ہمراہ ریاستِ ہوائی روانہ ہوئے، جہاں توقع ہے کہ وہ سال ِ نو کے دِن تک وہیں قیام کریں گے۔
صدر نے کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ 2013ء اُن کے صدارتی عہدے کا بدترین سال تھا، جیسا کہ اکثر امریکی سیاسی تجزیہ کار دعویٰ کرتے ہیں۔
تاہم، اُنھوں نے تسلیم کیا کہ عام جائزوں سے پتا چلتا ہے کہ اُن کی مقبولیت کم ہوئی ہے۔ برعکس اِس کے، اُنھوں نے کہا کہ اُن کا دھیان ’آگے بڑھنے‘ اور امریکیوں کے لیے بہتر مواقع پیدا کرنے کی طرف مبذول رہا ہے۔
صدر نے تعلیم، مینوفیکچرنگ اور توانائی کے شعبوں میں پیش رفت کا بھی ذکر کیا۔
جمعے کے روز سال کی آخری اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے، مسٹر اوباما نے حالیہ دِنوں کے دوران، امریکی معیشت میں حاصل ہونے والی پیش رفت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ ملک میں بے روزگاری کی شرح کو کم کرنے اور طویل مدت سے بے روزگار کارکنوں کے لیے سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانے کے سلسلے میں ’ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے‘۔
اُنھوں نے یہ بھی کہا کہ لوگوں کو صحت کا بیمہ خریدنے کے حوالے سے حکومت کے غیرمؤثر اندراج کے نظام کو دور کرنے کا اقدام اور کانگریس کے ساتھ حال ہی میں طے ہونے والا سمجھوتا یہ ظاہر کرتا ہے کہ انتظامیہ ’بے مقصد تعطل‘ میں الجھی ہوئی نہیں رہے گی۔
امریکی سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ 2013ء مسٹر اوباما کے پانچ برس کے دورِ اقتدار کا بدترین سال تھا۔ اُن کی مقبولیت کی شرح تیزی سے گِری ہے، اور ’سی این این‘ کے ایک تازہ ترین عام جائزے سے پتا چلتا ہے کہ 41فی صد کے مقابلے میں 56فی صد امریکی اُن کی طرف سے صدارتی عہدے کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں۔
صدر اوباما کے فخریہ صحت عامہ کی نگہداشت کے اصلاحاتی پروگرام پر، جسے عرف ِ عام میں امریکہ میں ’اوباما کیئر‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، اُن پر شدید تنقید کی گئی۔
ادھر، سابق سکیورٹی اہل کار، ایڈورڈ سنوڈن کی طرف سے نیشنل سکیورٹی ایجنسی کے نگرانی کے مبینہ پروگرام کے بارے میں وسیع پیمانے پر رازوں کا افشا بھی مسٹر اوباما کے قد کاٹھ میں کمی کا سبب بنا۔ اِن انکشافات نے مسٹر اوباما کو مجبور کیا کہ وہ متعدد امریکیوں کی تشویش کے معاملے سے نمٹیں، جس میں یہ کہا گیا کہ ممکنہ طور پر حکومت اپنے اختیارات سے تجاوز پر اُتر آئی ہے، اِس کوشش میں امریکہ کے خلاف کسی مزید دہشت گرد حملے کا قلع قمع ہو۔
اس ہفتے، ایک جج نے نگرانی کے پروگرام کو غیر آئینی قرار دیا، اور مسٹر اوباما کی طرف سے قائم کردہ نظر ثانی سے متعلق ماہرین کے ایک پینل نے رائے دی ہے کہ اِس معاملے میں حدود کا تعین کیا جائے، جن سفارشات کا وہ اِن دِنوں جائزہ لے رہے ہیں۔
صدر نے وائٹ ہاؤس سے نامہ نگاروں سے گفتگو کی،جس کے بعد وہ کرسمس کی چھٹیاں منانے کے لیے امریکی خاتونِ اول مشیل اوباما اور بیٹیوں کے ہمراہ ریاستِ ہوائی روانہ ہوئے، جہاں توقع ہے کہ وہ سال ِ نو کے دِن تک وہیں قیام کریں گے۔
صدر نے کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ 2013ء اُن کے صدارتی عہدے کا بدترین سال تھا، جیسا کہ اکثر امریکی سیاسی تجزیہ کار دعویٰ کرتے ہیں۔
تاہم، اُنھوں نے تسلیم کیا کہ عام جائزوں سے پتا چلتا ہے کہ اُن کی مقبولیت کم ہوئی ہے۔ برعکس اِس کے، اُنھوں نے کہا کہ اُن کا دھیان ’آگے بڑھنے‘ اور امریکیوں کے لیے بہتر مواقع پیدا کرنے کی طرف مبذول رہا ہے۔
صدر نے تعلیم، مینوفیکچرنگ اور توانائی کے شعبوں میں پیش رفت کا بھی ذکر کیا۔