یمن میں شیعہ حوثی باغیوں کے خلاف سعودی عرب کی قیادت میں خلیجی اور عرب ممالک کے اتحاد کی کارروائیاں تیسرے روز بھی جاری ہیں جب کہ امریکہ نے اس فوجی آپریشن میں سعودی عرب کو اپنی حمایت کا یقین دلایا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے مطابق صدر براک اوباما نے سعودی عرب کے بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز سے ٹیلی فون پر گفتگو میں اُنھیں اپنی حمایت کا یقین دلایا اور دونوں رہنماؤں نے یمن میں دیرپا امن کے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے سیاسی مذاکراتی عمل پر اتفاق کیا۔
بیان کے مطابق صدر اوباما نے سعودی عرب کی سلامتی کے لیے اپنے عزم کا اعادہ بھی کیا۔
خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق یمن کے دارالحکومت صنعا میں جمعہ کو رات دیر گئے لڑاکا طیاروں کی بمباری کا شروع ہونے والا سلسلہ ہفتہ کی صبح تک جاری رہا۔
مصر میں ہفتہ کو ہونے والے عرب لیگ کے اجلاس میں توقع ہے کہ یمن کی صورتحال ہی موضوع بحث ہو گی اور بتایا جاتا ہے کہ اس میں یمن کے صدر منصور ہادی بھی شرکت کر رہے ہیں جو کہ عدن میں حوثی باغیوں کے حملے کے بعد وہاں سے منتقل ہو چکے ہیں۔
جمعہ کو مصر کی فوج نے کہا کہ سعودی اور مصری جنگی بحری جہاز یمن کے ساحل کے قریب آبنائے باب المندب میں تعینات کر دیے گئے ہیں تاکہ اس اہم آبی گزرگاہ کا محفوظ بنایا جا سکے۔
فوجی حکام نے خبر رساں ایجسنی ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ سعودی اور مصری بحری جہاز اور کشتیاں اس آبنائے کے ارد گرد موجود ہیں۔
باب المندب مصر کی قومی سلامتی کے حوالے سے ایک حساس آبی گزرگاہ اور یہ بحیرہ احمر سے نہر سوئز میں داخلے کے لیے اہم راستہ ہے۔
ادھر حوثی باغیوں کے خلاف سعودی عرب کی فضائی کارروائیوں سے ریاض اور تہران میں "درپردہ جنگ" اور براہ راست تنازع کے خدشے نے بھی جڑ پکڑی ہے۔
شیعہ حوثی باغیوں نے گزشتہ سال یمن کی مرکزی حکومت کے خلاف تحریک شروع کی اور پھر انھوں نے ستمبر میں دارالحکومت صنعا پر قبضہ کر کے مختلف علاقوں میں بھی اپنا تسلط قائم کرنے کے لیے کارروائیاں شروع کر دیں۔
ایران جو کہ ان باغیوں کی حمایت کرتا ہے، نے فضائی حملوں کو یمن کی خودمختاری کے خلاف "خطرناک اقدام" قرار دیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق ایران نے حوثیوں کو مالی معاونت، ہتھیار اور تربیت فراہم کی لیکن یہ واضح نہیں کہ یہ کب تک اور کتنی مقدار میں دی جاتی رہی۔